|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2016

تہران: پاکستان سے متصل شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں ایرانی فورسز نے ایک گاؤں کے تمام مردوں کو پھانسی دے کر قتل کر دیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق جوڈیشل حکام نے مشرقی ایران کے صوبہ بلوچستان کی ایک بستی کے تمام مرد موت کے گھاٹ اتار دیے ہیں۔ مولا وردی کا دعویٰ ہے کہ قتل کیے گئے تمام افراد منشیات کے دھندے میں ملوث بتائے جاتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان تمام افراد کو منشیات کیسز میں نہیں بلکہ سیاسی انتقامی کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایران کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں طویل عرصے سے احساس محرومی کے خلاف وہاں کی سنی اکثریتی آبادی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ معاشی ابتری اور سماجی عدم مساوات کے شکار بلوچ شہریوں کے خلاف ایرانی فورسز طاقت کا وحشیانہ استعمال کرنے کے ساتھ ملک کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے الزامات کے تحت بڑی تعداد میں وہاں کے کارکنوں کو تختہ دار پرلٹکا جا چکا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد ان کے علاوہ ہیں۔گوکہ ایرانی صدرکی خاتون معاون خصوصی نے اس بستی کا نام ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کی شناخت ظاہر کی ہے۔ تاہم انہوں نے ریاستی اداروں کی جانب سے پھانسی دے کرہلاک کردہ شہریوں کے ورثاء4 کے لیے امدادی پروگرامات ختم کرنے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پھانسی دے کر ہلاک کیے گئے افراد کے بچوں کی امداد بند کرکے مستقبل میں انہیں انتقامی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانی جوڈیشل حکام کو شہریوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈالنے اورانہیں پھانسی دینے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے اگرکوئی شخص منشیات جیسے غیرقانونی دھندے کی جانب جانے پرمجبور ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ ایسے لوگوں کو پھانسیاں دینے سے قبل حکومت کو اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونا چاہیے