کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے خواتین پر تشدد سے متعلق پنجاب اسمبلی کی قانون سازی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی زن مریدوں کی اسمبلی ہے۔ بیوی اور اولاد سے اس کے کردار کے بارے میں پوچھنے کو بھی جرم بنایا جارہا ہے۔ اللہ کے ناموں کے نیچے پارلیمان میں بیٹھے افراد اللہ سے بغاوت کررہے ہیں۔ مغرب کی پیروی میں اسلامی تہذیب اور اسلامی اخلاق کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔علماء کرام کی جماعت میں شامل افراد کو اپنی رائے پر گھمنڈ نہیں ہونا چاہیے ،اپنی رائے پر اصرار اور مجموعی رائے کو حقیر سمجھنا علماء کے شایان شان نہیں ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں قبائلی و سیاسی رہنماء اجمل بازئی کی ساتھیوں سمیت جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری، مرکزی رہنماء جمعیت علمائے اسلام حافظ حسین احمد، صوبائی امیر مولانا فیض محمد، صوبائی جنرل سیکریٹری سکندر خان ایڈووکیٹ ، مولوی عصمت اللہ اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارے ادارے مغرب کی تقلید کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔ مغرب کا مقصد اسلامی تہذیب اور اسلامی اخلاق کا خاتمہ کرنا ہے ۔ ہم بھی خواتین پر گھریلو تشدد کو جرم سمجھتے ہیں لیکن اس نام پر شریعت کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور اللہ سے بغاوت کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں تحفظ حقوق خواتین کے نام پر قومی اسمبلی میں قانون سازی کی مسلم لیگ نے اختلاف کیا تھا لیکن آج مسلم لیگ ن اس سے دو قدم آگے جاکر پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کررہی ہے۔ یعنی پرویز مشرف سے مسلم لیگ ن کا اختلاف پالیسیوں یا ایجنڈا کا نہیں بلکہ صرف اقتدار کا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تشدد کے معنی کی وضاحت کرنا ہوگی۔ آدھی رات کو گھر آنے یا گھر سے جانے والی اپنی بیوی یا اولاد سے پوچھنا کیا جرم اور تشدد کہلائے گا۔ پنجاب اسمبلی کے قانون کے مطابق اگر ڈرانے اور دھماکنے پر بیوی نے پولیس کو فون کردیا تو شوہر کو اڑتالیس گھنٹے تک گھر سے باہر رہنا ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن نے طنزا کہا کہ اگر اس طرح کے قانون بنانے ہیں تو پھر لمبی چھوڑی قانون سازی کی کیا ضرورت بس مختصر سی ترمیم کرکے شوہر کو بیوی اور بیوی کو شوہر لکھ دیا جائے۔ اس قانون سازی سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب اسمبلی زن مریدوں کی اسمبلی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ جمعیت کے پورے ملک میں پھیلے ہوئے کارکنوں کیلئے یہ باعث مسرت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے حوالے سے جو دوئی کا تصور تھا آج وہ اکائی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ہم سب ایک ہی قافلے کے مسافر ہیں اور جمعیت علمائے اسلام بذات خود ایک تحریک ، نظریہ اور عقیدہ ہے جو اپنا نصب العین رکھتی ہے اور اپنے متعین منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ جمعیت اپنے سفر کے سو سال پورے کرچکی ہے۔ یہ تحریک زمانے کی مشکلات سے گزر کر آج یہاں تک پہنچی ہے ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور آج پھر تجدید عہد کرنا ہے اور جدوجہد کیلئے اللہ کی مدد طلب کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ ہمارے اکابرین نے اس تحریک کی بنیاد آزادی پر رکھی تھی۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ قرآن کریم نے آزادی کو اولین تقاضا قرار دیا ہے۔ بین القوامی اور مملکتی نظام کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام پروگرام کا خلاصہ آزادی اور معاشی خوشحالی اور پسماندہ طبقوں کو سہارا دینے کی جدوجہد ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا کہ ہم نے مملکت میں کیا نظام برپا کرنا ہے اور کس تصور کے ساتھ ہم نے جدوجہد کرنی ہے ۔ ہم آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں جنہوں نے انسانیت کا قتل عام کیا چاہے وہ جنگ عظیم اول ہو یا دوئم ، ناگا ساکی اور ہیروشیما ، پل بھر میں انسانیت کو خاک میں ملانا اور لاشوں کا ڈھیر لگانا اسی امریکہ اور مغرب کی تاریخ ہے جو آج مسلمانوں کو دہشتگرد کہتے ہیں۔ انہیں اپنے کردار اور تاریخ پر شرم آنی چاہیے۔ یہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ امن کیا ہے۔ اسلامی شریعت نے اگر ہمیں قومی زندگی میں کچھ بتایا ہے تو وہ امن اور معاشی خوشحالی ہے۔ اولین چیز امن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ایسی آبادیوں کی مثال دی ہے جہاں امن اور سکون تھا اور یہ اس بنیاد پر تھا کہ معیشت خوشحال تھی لیکن انہوں نے نعمتوں کا انکار کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی۔ آج ہم اپنے انفرادی اور قومی کردار پر نظر ڈالنی چاہیے۔ جن ایوانوں میں ہم اللہ کے ناموں کے نیچے بیٹھے ہیں لیکن زمین پر ہم اللہ کے قانون کے خلاف قانون بنارہے ہیں۔ پھر کیسے خوشحالی آئے گی۔ پورا عالم اسلام امتحان سے گزر رہا ہے۔ اللہ کے دین کا اولین تقاضا امن ہے اور امن کے معنی انسانی حقوق، جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے۔ تمام قانون سازی انہی مقاصد کیلئے ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے تو امن آتا ہے لیکن آج قانون سازی کرنے والے اللہ سے بغاوت کررہے ہیں۔ سنا ہے کل یا پنجاب اسمبلی نے کوئی قانون پاس کیا ہے ابھی تک اس کی کوئی تفصیل ہمارے پاس نہیں لیکن یہ تحفظ حقوق خواتین کے نام سے ہے۔ آج کل جو بیڑا غرق کرنا ہے کرو بس نام اچھا رکھے۔ امریکہ اور مغربی دنیا طاقت استعمال کرکے ظلم کررہی ہے اور بے گناہوں کا خون بہارہی ہے لیکن عنوان یہ ہے کہ ہم دہشتگردی کے خلاف لڑرہے ہیں۔ پھر ہمیں تقسیم کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ سارے مسلمان دہشتگرد نہیں ہیں لیکن ہر دہشتگرد مسلمان ہے۔ سارے مذہبی لوگ دہشتگرد نہیں ہے لیکن ہر دہشتگرد مذہبی ضرور ہے۔ کہتے ہیں سارے مدارس دہشتگرد نہیں ہے لیکن ہر دہشتگردی مدرسہ میں ہے۔ یہ باتیں کہنے والوں کو اپنی تاریخ معلوم نہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس طرح کے قوانین یورپ اور برطانیہ میں ہیں۔ ہم لوگ ان کی پیروی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ آگیا ہے جس کی نشاندہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی کہ ایک وقت آئے گا کہ تم پچھلی قوموں کی پیروی قدم بہ قدم کروگے۔ یہ تہذیب کی پیروی ہے۔ یہ ذہن ہے ہمارے ملک میں قانون بنانے والا کا۔ جمعیت علمائے اسلام کے امیر نے تقریب میں شریک افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے یہاں علماء اور مدارس کا ماحول ہے۔ جمعیت کے جلسے ہوتے ہیں اور علماء تقاریر کرتے ہیں لیکن جدھر آپ نے ہمیں بھیجا ہے۔ قانون ساز اداروں میں جب ہم اپنے کانوں سے ان کے خیالات سنتے ہیں تو یقین نہیں آتا۔ ایک سیاسی رہبر نے تجویز دی کہ قانون سازی معاشرے کی خواہشات کے مطابق کی جائے۔ ہم قرآن و سنت کے پابند نہیں۔ ہم نے کہا کہ مسلمان کی حیثیت سے حلال اور حرام کا فیصلہ کون کرے گا۔ اس نے کہا کہ جو سوسائٹی کہے گی۔ ہم نے کہا کہ اگر سوسائٹی کی خواہش ہو کہ مرد مرد سے نکاح کرے تو آپ کا خیال ہوگا۔ اس نے کہا اگر سوسائٹی چاہتی ہے تو اس میں کوئی قباحت والی بات نہیں۔ اسمبلیوں میں ایسے لوگوں سے ہمارا واسطہ ہوتا ہے۔ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ جمعیت پارلیمانی میدان میں کیوں ہے۔ ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری قانون سازی کی بدولت ملک کے عوام حرام چیزیں کھانے سے محفوظ ہیں۔ تین چار ماہ قبل بچوں کیلئے خریدے گئے چاکلیٹ کے اجزاء کو پڑھا تو پتہ چلا کہ اس میں خنزیر کے اجزاء شامل ہیں۔ ہم نے اسمبلی میں قرارداد پیش کی جس پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں لے جایا گیا۔ تین چار مہینے وہاں رہا۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی کمیٹی نے قانون بناکر دیا جب ہم نے قانون پڑھا تو اس کے اندر پھر گنجائش رکھی گئی کہ ذبح کرنے کے کئی اور طریقے بھی بیان کی گئی تھیں۔ یہ وہ چیزیں تھیں جسے شریعت نے حرام یا پھر انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا۔ علماء کرام جانتے ہیں کہ جہاں چیز کے بارے میں کراہت آجاتی ہے اسے کھایا نہیں جاتا بہت سے جانور ہیں جن کے بارے میں حرمت کا حکم نہیں لیکن وہ مکروہ ہیں۔ ہم نے پارلیمان میں ایسے عناصر مقابلہ کیا اور قانون سازی روکی۔ ایک ہفتے تک مذاکرات ہوئے۔ ماہرین کو بلایا اور مذاکرات کئے اور پھر ترامیم ہوئی اور اللہ کے فضل و کرم سے آج قوم ان حرام چیزوں کے کھانے سیبچ گئی۔ پھر لوگ کہتے ہیں کہ مولوی صاحبان کو کیا پتہ ہے۔ جب آئین کہتا ہے کہ قانون سازی قرآن سنت کے مطابق ہوگی اور اس کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔ قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی میں صرف علماء کرام ہی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں اداروں نے قسم کھارکھی ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی نہیں کرنی۔ جمعیت علماء اسلام کے امیر نے کہا کہ ہم مشکل حالات سے آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر اور عالمی سطح پر سیاست میں تبدیلی آرہی ہے۔ عالمی سیاست پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی غلامی کا سبب بن رہی ہے۔ دنیا میں اور بھی قوتیں ہونی چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا کا کھاتے اور پیتے ہیں اسی کے پیسوں سے ملک چلاتے ہیں پھر جو وہ کہے گا پھر ہم مانیں گے یعنی وہ وہ آقا ہے۔ وہ ٹیکنالوجی، علم ، آبادی ، رقبے ، اقتصادی اور دفاعی قوت ہر اعتبار سے بڑا ہے لیکن وہ لوگوں کو غلام رکھنے کی ذہنیت رکھتا ہے۔ ہم آقایت کے رویے کے مخالف ہے ہم دوستانہ رویے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ آج ہم چین کے ساتھ تعلقات کو کیوں اہمیت دیتے ہیں اور ہمارا خوشحال اقتصادی مستقبل چین کے ساتھ تعلقات پر وابستہ ہوگیا ہے۔ چین اس لئے ہمارا دوست ہے کہ وہ آقایت کی بات نہیں کرتا اور معاشی خوشحالی میں شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔ ہم غلامی کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوستانہ رویے کی قدر کرتے ہیں۔ چائنہ کے کاروبار کو اس لئے خوش آمدید کہہ رہے ہیں کہ وہ اشتراک چاہتا ہے۔