کوئٹہ: بلوچ نیشنل فرنٹ کے ترجمان نے گزشتہ روز آواران میں فورسز کے افسران کے دورہ کو جاری کاروائیوں میں شدت لانے کا نیا منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا حالیہ دورہ آواران، مشکے و ملحقہ علاقوں میں جاری کارروائی میں شدت لانے کا ایک نیا منصوبہ ہے اپنے جاری کردہ بیان میں ترجمان نے کہا کہ بلوچستان بھر کی طرح آواران میں بھی کئی عرصوں سے کارروائی جاری ہے۔ اس کارروائی کے بعد بڑی تعداد میں نہتے لوگوں کو ہلاک و زخمی اور اغواء کے بعد قتل کیا جا چکا ہے۔فورسز کے افسران کے دورے کے بعد مشکے سے فورسز نے تین بلوچ فرزندان کو قتل کرنے کی ان کی مسخ شدہ لاشیں مقامی انتظامیہ کے حوالے کیں طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود بلوچ عوام کا آزادی کی تحریک سے وابستگی فورسز کے لئے بوکھلاہٹ کا باعث بنا ہوا ہے، اس لئے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ اپنے زر خرید سرداروں و دیگر عوام دشمن قوتوں کو یکجا کر کے میڈیا میں انہیں بلوچ عوام کانمائندہ ظاہر کیا جا رہا ہے تاکہ نہتے عوام کی قتل عام کو چھپایاجا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان تاریخی حوالے سے ریاست کا نہ کبھی حصہ رہا ہے اور نہ ہی بلوچ اپنی آزادی سے دستبردار ہوکر غلامی میں اپنی ہزاروں سالہ تاریخ، زبان ، ثقافت و آنیوالے نسلوں کی قربانی دے سکتے ہیں۔ آزادی کے لئے جاری جدوجہد بلوچ عوام کے جذبات کا اجتماعی اظہار ہے جسے ریاستی طاقت جھوٹ و فریب اور طاقت کے استعمال سے روک نہیں سکتی۔ترجمان نے سیکرٹری داخلہ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ریاستی نمائندے علی الاعلان بلوچستان میں فورسز کے ذریعے امن و امان بحال کرنے کے نام پر اپنے خطرناک عزائم کا اظہار کررہے ہیں۔ بی این ایف کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ریاست کی قبضہ گیریت کے خلاف آزادی کی جدوجہد چل رہی ہے؛ جسے کچلنے کیلئے فورسز نہتے عوام، سیاسی کارکنوں و رہنماؤں سمیت ہر طبقے کے لوگوں کو قتل و اغوا کر رہے ہیں۔ آزادی حاصل کیے بغیر بلوچ عوام اس جدوجہد سے کسی طور دستبردار نہیں ہو سکتے تر جمان نے کہا کہ گوادر میں پہلے سے ہزاروں فورسز کے اہلکاروں کی موجودگی اور نئے دستوں کے بھیجنے کا اعلان بلوچستان میں قتل عام و نسل کشی کی کاروائیوں میں شدت لانے کے لئے ہیں۔ ان غیر قانونی سرمایہ کا ریوں کو کامیاب بنانے کے لئے مقامی بلوچ آبادیوں کو طاقت کے استعمال اور ان پر زندگی گزارنے کے تمام ذرائع محدود کرنے انہیں نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں۔ریاستی فورسز چائنا کی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرنے اور قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کے لئے پہلے سے ہی نہتے بلوچ عوام کے قتل عام میں مصروف ہیں۔کوئٹہ کے بلوچ علاقوں میں دو ہفتے سے جاری آپریشن میں سو سے زائد بلوچوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا ہے، جس کا اعتراف خود ریاستی نمائندے کرچکے ہیں، مگر کسی کا نام میڈیا میں ظاہر نہیں کیا جا رہا۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل کی خاموشی ان کاروائیوں کو جاری رکھنے کا سبب بن رہی ہے۔ بی این ایف کے ترجمان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم پر نظر رکھنے والے اداروں نے بلوچستان میں عوام کے خلاف ہونے والی ان کاروائیوں کا نوٹس نہ لیا تو فورسز ریاستی طاقت کو بلوچ عوام پر استعمال کرکے مزید ہزاروں لوگوں کو قتل و لاپتہ کریں گے۔