|

وقتِ اشاعت :   February 28 – 2016

کوئٹہ: جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہا شمی نے کہا کہ جماعت اسلامی یکم مارچ سے کرپشن سے پاک بلوچستان تحریک کا آغاز کر رہی ہے اور صوبے میں ہونیوالے کرپشن کے اسکینڈلز منظر عام پر لایا جائیگا ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا اس موقع پر جنرل سیکرٹری ہدایت الرحمان ، بشیراحمد ودیگر بھی موجود تھے انہوں نے کہا کہبلوچستان پاکستان کے رقبے کا 45فیصد اور آباد ی کے تقریباً 6 فیصد پر مشتمل ہے ۔ 750 کلومیٹر ساحلی علاقہ اور ایران ، افغانستان سے سینکڑوں کلومیٹر مشترک سرحد ہے۔ تیل ، گیس ، کوئلے ، سونا اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے ۔ صوبے کے دیہی علاقوں میں غربت پاکستان کی اوسط سے تقریباً دگنی ہے ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ و ہ گیس جو سوئی سے نکل کر کراچی سے پشاور تک روشنی اور حرارت فراہم کر رہی ہے۔ خود سوئی کی 99 فیصد آباد ی اور بلوچستان کی 95 فیصد اس کی روشنی اور تمازات سے محروم ہیں۔ بلوچستان میں پانی صرف 23 فیصد آباد ی کو دستیاب ہے باقی انسان اور مویشی ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں ۔ مضر صحت پانی پینے کی وجہ سے جگر ، گردے ، اور دیگر بیماریاں بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ بجلی صوبے کے 12 فیصد علاقوں تک پہنچتی ہے۔ 86 فیصد علاقہ بجلی سے محروم ہے۔ بلوچستان میں بڑی آباد ی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وقت بلوچستان میں 6554دیہی آبادیاں ہے یہ صوبے کے 76.1 فیصد رقبے پر رہتے ہیں ۔ اورشہری رقبہ 23.9 فیصد بنتا ہے۔ 76.1 فیصد رقبے پر رہنے والے زندگی کے بنیادی سہولتوں تعلیم ، علاج ، روڈ ، پانی اور بجلی سے محروم ہیں۔ اسی طرح صوبے میں بے روزگاری کی شرح دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تعلیم سے محروم بچوں کی سب سے بڑی تعداد بلوچستان میں ہے ۔ جہاں 66 فیصد بچے باقاعدہ تعلیمی ادارے میں نہیں جاتے ۔ بلوچستان کے انفرادی انفراسٹرکچر یہ ہے کہ رواں مالی سال میں صوبائی حکومت نے تعلیم کیلئے بجٹ میں 38 ارب 32 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ صوبائی تعلیمی اداروں کی صورت حال اس حد تک خراب ہے کہ وزرا تعلیم سے لیکر ضلع محکمہ تعلیم کے آفیسر تک اپنے بچوں کو سرکار ی اسکولوں میں پڑھانے کیلئے تیار نہیں ۔ پرائمری تعلیم کی صورت حال مایوس کن ہے ۔ صوبے کے 43 فیصد اسکول بجلی ، 36 فیصد اسکول پانی 35 فیصد اسکول واش روم ، 32 فیصد اسکول چاردیواریوں سے محروم ہیں اور جبکہ 43 فیصد اسکولوں کی عمارتیں اطمینان بخش نہیں ۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں 5 ہزار اسکول بند اور 6 ہزار اسکول سنگل ٹیچرپر چل رہے ہیں صوبے میں صحت کی صورت حال اور زیاد ہ بری ہے کہ پورے صوبے میں سوائے کوئٹہ کے کسی ضلع میں صحت کی سہولیات دستیاب نہیں ہے۔ رواں مالی سال میں صوبائی حکومت نے صحت کا بجٹ پر 15 ارب 48 کروڑ 20لاکھ خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محکمہ صحت کے رپورت کے مطابق پورے صوبے میں407 اسپشلسٹ ڈاکٹرز ہیں ۔ لیکن صرف 119 ڈاکٹر ز ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اس وجہ سے وزیر صحت سے لیکر ڈی ایچ او تک کے ذمہ داران اپنے بچوں کاسرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں کراتے ہیں اور دیہی ایریاز میں موجود سول ڈسپینسیرز ، B.H.U کی حالت اوربھی خراب ہے۔