کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشن جاری ہے ۔ بلوچوں کا اغوا و قتل ہونا روز کا معمول بن چکاہے۔نئے سال کے ابتدائی دو مہینوں میں681 بلوچوں کو اغوا اور59 بلوچوں کو شہید کیا گیا ہے۔شہید ہونے والوں میں دوران آپریشن قتل اور لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں شامل ہیں۔ان میں بی این ایم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منان اور ساتھی بھی شامل ہیں، جنہیں ایک تنظیمی دورہ کے دوران گھر میں شہید کیا اور مسلح قرار دیکر مقابلے میں ماراگیا۔ ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم اور تحقیقات کرکے بلوچ قوم پر مظالم کا نوٹس لیں۔اغوا شدگاں کی اکثریت کوئٹہ ، بولان،سوئی، گوادر و مکران کے دوسرے علاقوں سے ہے۔ حکومتی اعتراف کے باوجود انہیں منظر عام پر نہیں لایا جارہا اور انسانی حقوق کے ادارے بھی اپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہیں۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کی چشم پوشی سے فائدہ اُٹھا کرکارروائیوں کو نسل کشی کی حد تک پہنچاچکا ہے۔ کیونکہ بلوچ قوم نہیں بلکہ بلوچستان اور اس کے وسائل کی ضرورت ہے۔ ان وسائل کی لوٹ مار کو مزید آسان بنانے کیلئے بلوچ نسل کشی کا تہیہ کر رکھا ہے، جو آج سب کے سامنے واضح ہے۔کوہلو سے مکران تک کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے جاچکے ہیں اور تین لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر(آئی ڈی پیز) کرکے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے، جو آبادی کی اوسط فیصد کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے تناسب میں شمار ہوتا ہے۔ملی بھگت سے گوادر و گرد و نواح کی زمینوں کو غیر بلوچوں کو بیچ کر ’گوادر سیف سٹی‘ کے نام پر گوادر سے بلوچوں کو بے دخل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ آج بھی گوادر کارڈ کے نام پر گوادر کو بلوچوں کیلئے نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے ،ترجمان نے کہا کہ پیر کی صبح آواران کے پیراندر میں آپریشن میں کئی گھروں کو جلایاگیا۔ خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا۔ دو طالبات جو امتحان دینے جارہی تھیں، ان کے امتحانی سلپ چھین کرانہیں امتحان سے محروم کیا گیا۔پیراندر آواران آپریشن میں وحید ساجدی اور اشرف ساجدی کے گھروں کو جلایا گیا، وحید ساجدی ایک عام شہری اور زمیندار ہیں ، جب کہ اشرف ساجدی ایک دکاندار ہیں ۔ 27 فروری کو آواران بازار سے ایک طالبعلم عادل ولد رحیم بخش کو اغوا کیا گیااور اسی دن خاران میں کرکٹ گراؤنڈ سے کھیل کے دوران ایک بلوچ فرزند کواغوا کیاجو تاحال لاپتہ ہیں ۔یہ مظالم جاری ہیں اور ان میں ہر آئے روز شدت لائی جارہی ہے۔بولان،دشت،سوئی ،بارکھان میں گزشتہ کہی روز سے مختلف علاقوں میں فورسز کی آپریشن جاری ہے۔27 فروری کو مشکے میں مقامی انتظامیہ کو تین لاشیں حوالے کرنے کے ساتھ بیان میں انھیں مزاحمت کار قرار دے کر مقابلہ کا دعوی کیا،دراصل ان میں مشکے کے رہائشی میر حسن ولد ابراہیم اور واشک کے رہائشی محمد صدیق ولد قادر بخش کو رواں سال کے آخر نومبر کے مہینے میں فورسز نے حراست بعد لاپتہ کیاجبکہ تیسرے شخص جسکا تعلق وہ ژوب سے بتاتے ہیں اس بارے میں پارٹی معلومات حاصل کر نے کی کوشش کر رہا ہے اور جلداس لاش بارے میڈیا کو آگاہی دی جائے گی۔