لندن: بلوچ دوست رہنماء حیر بیار مری نے آزادی پسند جماعتوں کو اتحاد کیلئے دو نکات پیش کردئیے ۔حیر بیار مری نے لندن سے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قومی اتحاد اصولوں کے تحت ہونا چاہیے جس سے تحریک کو نقصان نہ ہو ماضی کے غلطیوں کو مد نظر رکھ کر اتحاد کے لئے نکات پیش کررہے ہیں جس پر اتفاق کی صورت میں اتحاد کیلئے تیار ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچ کی وجود کوریاست اور اسکے استحصالی منصوبوں و بلوچ کے خلاف جرائم میں شریک کار چین سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ قوم کی بقاء اوردشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے بلوچ قومی جہد کی تمام سطحوں پرمضبوطی اولین شرط ہے ۔ہم سب کو بخوبی ادراک ہے کہ حالیہ انتشار سے دشمن نے بھر پور فائدہ اٹھا کر کارروائی سے بلوچ نسل کشی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ا اس نا گفتہ بہ صورت حال کا احساس کر کے سنجیدہ حلقوں کی جانب سے ایک عرصے سے قومی اتحاد و یکجہتی پہ زور دیا جا تارہا ہے اور حالیہ عرصے میں قومی جہد سے منسلک کچھ قوتوں کی جانب سے اشتراک عمل کے حوالے سے مثبت اشارے بھی ملے ہیں۔اب میرا فرض ہے کہ اس حوالے سے قوم کو اپنے موقف سے آگاہ کروں۔کسی بھی سطح پر قومی جد و جہد میں انتشار،نااتفاقی ،دھڑا بندی،ذاتی نمود ونمائش ،تنگ نظری اور خود غرضی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی امر کا احساس رکھتے ہوئے ہم نے شروع دن سے ، پسند نا پسند، ذاتی تعلقات ،گروہ بندی اور قومی اداروں میں مداخلت جیسے منفی رویوں سے بالا تر ہو کر قومی جہد سے وابسطہ تمام افراد ،تنظیموں و جماعتوں کی بلا کسی شرط اور ذاتی غرض کے بغیر ہر ممکن سیاسی و اخلاقی مدد کو اپنا قومی فرض سمجھا ۔آج تک نہ کسی ادارے میں مداخلت کی نہ کسی ٹوٹ پھوٹ کے نا پسندید ہ عمل میں شریک رہا۔ تما م اداروں اور افراد کی مخلصی اور قربانیوں سے کبھی انکار نہیں کیا مگر مخلصی اور قربانی کے جذبے کے ساتھ اگرکہیں غیر ذمہ داری اور بے اصولی جیسے عناصر شامل ہو جائیں تو تمام قربانیوں اور نیک نیتی کے باوجود یہ غیر ذمہ دار نہ عمل مجموعی قومی نقصان کا باعث بنے گا۔ اسی لیئے ہزارہا مجبوریوں کے باوجود ہم نے قومی تحریک کے اصولی سرحدوں سے آگے قدم رکھنے کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔آ ج ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے سے موجود ہم آہنگی کس طرح انتشار میں تبدیل ہوا ،ہم کیوں اجتماعیت سے گروہیت کی جانب گئے۔ بلوچ قوم کی لازوال قربانیوں اور ان کی بے انتہا حمایت سے ملی طاقت کو خود ان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ تحریک اور آزادی کے نام پرذاتی اور خاندانی دشمنیاں نکالی گئیں اور سنی سنائی باتوں کو جواز بناکر سینکڑوں بے گناہ بلوچوں کو زندگی سے محروم کرکے ان کو ریاستی مخبر، قوم دشمن اور تحریک مخالف قرار دیا گیا اور جس کی ذمہ داری آزادی پسند تنظیموں نے قبول کی مگر مقتولین کے خاندان اور عوام کو انکی بارہا درخواستوں کے باوجود کسی طرح کا بھی تسلی بخش ثبوت پیش نہیں کیا گیا نہ کھبی اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کر کے ایک ذمہ دار نہ طریقہ کار اپنایا گیا۔ جس سے ان شکایات کا ازا لہ ہو یا جس سے یہ ثا بت ہوسکے کہ وہ حقیقتاً بلوچ قوم کے خلاف ان کے معاون و مددگارتھے۔ اسی طرح ان علاقوں میں جہاں ہمیشہ آزادی پسند تنظیموں کو عوام نے کمک بہم پہنچایا وہاں چھوٹی سی طاقت حاصل ہونے پر سرمچاروں نے عوام کے محافظ ہونے کے بجائے ان کیلئے مسائل پیدا کئے۔قومی حساسیت اور اس سے رشتے کی اہمیت کو نظر انداز کر کے کارروائیاں اور ان پر سیاسی گرفت کی کمزوری جس سے ایک طرف عوامی مایوسی تو دوسری طرف قومی احتساب اور جواب دہی سے بالاتر ہو نے کا احساس ابھرا انہی پالیسیوں نے عوام کے نزدیک جہدآزادی کی بابت انتہائی منفی تاثر پیدا کیاجو کہ دشمن کے ہاتھوں ہزاروں کے حساب سے بلوچ عوام کی شہادت اور ریاستی اغواء سے بھی بڑا نقصان ثابت ہوا۔دوسری طرف یہ تنظیمیں ایک آزاد وطن کی تشکیل اور سماجی مسائل کے فرق کو سمجھنے سے سر دست قاصر رہے ہیں ۔ موجودہ حالات میں جب بلوچ کے پاس ایک ریاست نہیں جو سماجی مسائل کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کرواسکے اسی دوران آزادی پسند تنظیموں کی طرف سے قومی آزادی کے جہدسے توجہ ہٹا کر سماج کے ہر مسئلے میں دخل جہاں بہت سے غیر ضروری مسائل پیدا کرنے کا سبب بنا وہیں قومی جہد کے اصل سمت سے توجہ ہٹانے کا موجب بنتا جارہا ہے ۔ جس بے جا دخل اندازی سے بلوچ رسم رواج اور کسی کی عزت نفس کی پامالی ہو وہ حکمت عملی میرے نزدیک ریاست کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ ناقص پالیسیاں، چیک اینڈ بیلنس کا فقداں اور نظم و ضبط کی ابتری جیسے کمزوریوں کی بدولت دشمن اپنے کارندے آزادی پسند تنظیموں میں گھسانے میں کامیاب ہو ا جس نے تحریک کے حوالے سے بلو چ قوم میں ایک مایوسی کی لہر پیدا کی ہے۔حیربیار مری نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ آزادی کی جدوجہد میں شامل کسی ایک فریق کو یہ اختیا ر حاصل نہیں کہ وہ ایک طرف آزادی کادعوی کرے اور دوسری طرف بلوچ قومی مفادات اور حصولِ آزادی کے نقطے کو بالائے طاق رکھ کر ان سے مزاکرات کرے۔ کسی بھی فریق کی طرف سے ایسا عمل نہ صرف انکے اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے والے شہیدوں کے مشن سے روگردانی ہوگی بلکہ یہ اعمال ہمارے نزدیک بلوچ قوم کی آزادی کی مجمو عی جدوجہد کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ بلوچ رہنما نے کہا کہ پاکستانی یا ایران کے خلاف جدوجہد کرنے والا کو ئی جہدکار بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے کسی دوسرے آزادی پسند بلو چ کے خلاف دونوں جانب کے ریاستوں کے معاون اور پراکسی نہ بنیں۔ بلوچ قوم ایک سیکولر قوم ہے اور وہ ایک آزاد سیکولر بلوچستان کے لیے جدوجہد کررہی ہے جہاں مذہب اور عقیدے کے حوالے سے تمام شہری آزا د اور خودمختار ہونگے تاکہ وہ آزادنہ طور پر اپنے مذہبی عقیدے کی پیروی کریں۔ اگر کوئی بھی مذہبی تنظیم ، بنیادی انسانی حقوق، عالمی قوانین، بلوچ قومی مفادات اور بلوچ قوم کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کام نہیں کررہا تو اس کے مذہبی حوالے سے سیاست اور جدوجہد سے ہمیں کوئی تکرار نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جب ہم نے ان تمام غلط پالیسیوں کو بلوچ مفادات کے خلاف قرار دے کر ان سے اختلاف رکھا تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ سپریم کونسل اورذیلی اداروں کے نام پہ بیانات جاری کر کے مجھے قومی جہد کیلئے نقصان دہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ اور انکے ہاتھوں بلوچ قومی وسائل کی فروخت جیسے عمل کا مرتکب ٹھرایا گیا ۔ اگر واقعی میں نے بلوچ قومی وسائل کا سودا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں کیا ہے تو الزام لگانے والی تنظیمیں ثبوت بلوچ قوم کے سامنے پیش کرتے تاکہ قوم مجھ سے ایسے بدترین عمل پر جواب طلب کرتی۔ اگر اس طرح کا کوئی ثبوت وہ پیش نہیں کرسکتے تو قوم کے سامنے ان الزامات کی وضاحت کریں کہ کس وجوہات کو بنیاد بناپر اس طرح کے الزامات لگائے گئے ۔حیربیار مری نے کہا کہ میری زندگی کا اولین و آخری مقصد بلوچ سرزمین کی تمام قوتوں سے مکمل آزادی ہے اور اس کیلئے میں اصولی اشتراک عمل کیلئے ہمہ وقت تیار ہو ں تاکہ ہماری قومی آزادی کی منزل قریب تر ہو ۔لیکن کسی بھی قسم کی موثر اشتراک عمل کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ کیونکر آج ہم اس بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں اسکے بنیادی ذمہ دار کون تھے اور اسکی شروعات کہاں سے ہوئی، اور اس کے وجوہات کیا تھے ۔ اگر ان کی وجوہات تلاش نہیں کی گئیں تو یہ تمام وجوہات مستقبل کے اشتراک عمل کے لیے دوبارہ مشکلات جنم دے سکتی ہیں۔ ہم نے بلوچستان کی آزادی کے لیے ہمیشہ اصولی اشتراک عمل کیلئے کوششیں کیں اور اب بھی اصولی اشترا ک عمل کے لیے تیار ہیں۔ موجودہ حالات اور ماضی کی تجربات کو مدنظر رکھتے ہو ئے کسی بھی اشتراک عمل کے آغاز کے لیے ہمارے دو شرائط ہیں ۔ اول یہ کہ بلوچ قوم کی طرف سے عطا کردہ طاقت کو بلوچ کے خلاف استعمال کرنا، سماجی مسائل میں دخل اندازی کرکے رسم رواج کو پامال کرنا یا کسی بھی قوت کا پراکسی بن کر بلوچوں کے خلاف دشمن کی مدد کرنا جیسے پالیسیوں کو مکمل ترک کیا جائے۔دوئم یہ کہ جو بھی اشتراک عمل ہو اس میں تنظیمی پلاننگ سے ہٹ کر کہ جس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے باقی قوم کے حوالے سے تمام پالیسیوں میں قوم کو نیک نیتی سے اعتماد میں لیا جائے ،اسکے بنیادی نکات و اصولوں سے قوم کو مکمل آگاہی دی جائے تاکہ سابقہ تجربات کی روشنی میں ناکامی کی صورت میں ذمہ داروں اور اسباب کے تعین میں قوم کو کوئی ابہام نہ ہو، اس کے علاوہ اس سے ذاتی و گروہی مفاد پرستی کی حوصلہ شکنی اور مجموعی قومی مفاد کی حوصلہ افزائی ہو سکے گی۔ میرے نزدیک ان دونوں شرائط پر عمل کرنے سے ہی یہ ممکن ہے کہ قومی تحریک میں ہم آہنگی اور ایک مشترکہ ڈسپلن کی تشکیل ہوسکے۔