کراچی: سپریم کورٹ میں کراچی بد امنی عملدرآمد کیس میں سندھ حکومت نے حامی بھری ہے کہ رینجرز کو تفتیش اور چالان کے اختیارات دینے کے لیے وفاقی حکومت سے مل کر قانون سازی کی جائے گی۔سندھ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کو تفتیش اور چالان کے اختیارات دینے کے لئے وفاقی حکومت سے مل کر قانون سازی کی جائے گی۔سپریم کورٹ میں کراچی بد امنی عملدرآمد کیس کی سماعت دوسرے روز بھی جاری رہی جس میں سندھ حکومت نے رینجرز کے تھانے قائم کرنے، ملزمان سے تفتیش کرنے اور چالان داخل کرنے کے اختیارات پر جواب جمع کرایا۔صوبائی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ اس میں بعض قانونی پیچیدگیاں ہیں۔اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے مل کر قانون سازی کی جائے گی۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں لارجر بینچ نے کراچی کلنگ پر لیے گئے از خود نوٹس کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔گذشتہ روز سماعت میں سندھ رینجرز نے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں عدالت سے ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے مقدمات میں پروسیکیوشن کے اختیار کا مطالبہ کیا تھا۔سندھ رینجرز نے رپورٹ میں اختیارات فراہم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پولیس دباؤ میں ہے اور مجرمانہ سرگرمیوں کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی سست روی کا شکار ہے۔رینجرز نے عدالت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ انھیں پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ منگل کوچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے بدامنی کیس میں پولیس کی رپورٹ پھر مسترد کر دی اور پیرول پر رہا ملزمان کی گرفتاری کی تفصیلات طلب کیں۔عدالت نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس غلام حیدر جمالی کی جمع کروائی گئی رپورٹ کو کاغذ کے ٹکڑے قرار دیا اور کہا کہ رپورٹ میں سوالات کے جواب نہیں دئیے گئے۔
دریں اثناء چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وفاق، سندھ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کراچی میں رینجرز کے تحفظات کا حل تلاش کریں۔منگل کے روز سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے بدامنی کیس کے فیصلے پر علمدرآمد سے متعلق درخواست کی سماعت کی، سماعت سے قبل آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ 2015 میں ٹارگٹ کلنگ کے 159 واقعات ہوئے جن میں سے 83 واقعات کے مقدمے درج کیے گئے، 53 ملزمان گرفتار جب کہ 15 ملزمان پولیس مقابلوں میں مارے گئے، 25 مقدمات میں پولیس کی تفتیش جاری ہے،عدالت عظمی نے آئی جی سندھ کی اس رپورٹ کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیکر رپورٹ مسترد کردی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ خود کو آئی جی کہنے والے کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی ماتحتی میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ کی رپورٹ ہمارے لیے کاغذ کے ٹکڑے ہیں ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں، اس میں اعدادو شمار کے علاوہ کچھ نہیں، لگتا ہے آپ کچھ نہیں بتاناچاہتے۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کا کراچی پولیس پر کوئی کنٹرول ہی نہیں جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس نامناسب ہیں، آئی جی سندھ کی بات پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی کارکردگی کے لحاظ سے یہ ریمارکس بالکل مناسب ہیں، اگر آپ کو اعتراض ہے تو ایک درخواست دیں، آپ کے افسر جھوٹ بولتے ہیں ، آپ کا جو افسر رپورٹ تیار کرتا ہے وہ جعلسازی کرتا ہے ، آپ کے افسران کو بریفنگ نہیں دیتے تو آپ بیٹھ جائیں ، ہم ان افسران سے پوچھ لیتے ہیں۔ چیف سیکرٹری صاحب آپ بتائیں محکمہ پولیس کیسے چل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جلدی جلدی تبادلے ہوں گے تو افسران کام کیسے کریں گے۔ جب ایک پولیس افسر کا سال میں سات بار تبادلہ ہوگا اس کا مطلب اسے کام کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی ، ان حالات میں گڈ گورننس کیسے آسکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مناسب جواب نہ دینے پر آئی جی سندھ کی سرزنش کی۔ چیف سیکرٹری صدیق میمن نے بھی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ پے رول پر سات ملزموں کو رہا کیا گیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ جو ملزم آپ نے رہا کئے ان میں سے تین دہشت گردی کے سزا یافتہ ملزم تھے۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ کون ملزم تھے اور ان کو کیوں رہا کیا گیا۔ آئی جی سندھ کے جواب نہ دینے پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ10 مارچ کو ان تینوں ملزموں کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔