|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2016

کوئٹہ: فیڈرل لیویز اور لیکچراز کی آسامیوں کی منسوخی بلوچ دشمن اقدام ہے موجودہ حکمران عوام کو روزگار دینے کے بجائے روزگار کے راستے بند کرنے پر تلے ہوئے ہیں نسلی ، لسانی بنیادوں پر حکومتی امور چلانا قابل مذمت ہے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ فیڈرل لیویز میں تعیناتیوں کے عمل کو روکنے کا کوئی جواز نہیں صرف بلوچ اکثریتی اضلاع و ڈویژنز کی نشستوں کو نسلی ، لسانی ، تنگ نظری کی بنیاد پر معطل کرنا افسوسناک عمل ہے بلوچ وسائل سے حکومتی امور چلائے جا رہے ہیں بلوچ وسائل کی سیاسی و جغرافیائی اہمیت ہے 2013ء کے بعد اقتدار پر براجمان صوبائی حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں لیکچراز کی آسامیوں کو منسوخ کر دیا گیا تھا پبلک سروس کمیشن کے امور میں مداخلت اور بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں میرٹ کی آڑ میں جونیئر کو سینئر پر تقویت دینا بلوچ دشمنی پر مبنی پالیسیوں کو دوام دینا بلوچستان کے عوام کو روزگار دینے کے بجائے روزگار کے دورازے بند کرنا ، ڈھائی سالوں میں تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت عوام میں نفرت و تعصب جیسے منفی رجحانات کو بڑھانا اور اپنے دور اقتدار میں کرپشن ،اقرباء پروری ، نام نہاد تعلیمی ایمر جنسی کے آڑ میں تعلیم کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا گیا بلوچستان کے تعلیمی اور سرکاری امور میں بلا جواز سیاسی مداخلت کرنا یہ موجودہ صوبائی حکومت کے اتحادیوں کا وطیرہ رہا ہے جنرل مشرف کے دور سے بلوچستان کے ساتھ ناانصافیاں برتی جا رہی ہیں جس سے معاشی اور معاشرتی مسائل جنم لیا ہونا تو یہ چاہئے کہ بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا لیکن صوبائی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ بلوچوں کو مزید پسماندہ ، بدحال اور استحصال کا نشانہ بنایا جائے اسی پر عمل پیرا ہیں ایک جانب لاکھوں افغان مہاجرین کی آباد کار کی جا رہی ہے دوسری جانب بلوچ اکثریتی اضلاع ، ڈویژنز وسیع و عریض سرزمین کو نظر انداز کر کے چند اضلاع کے لئے رقوم مختص کرنا بلوچ علاقوں کو مکمل نظر انداز کرنے ، کوئٹہ کیلئے وزیراعظم پیکیج کی منظوری کے بعد اس میں بھی کوئٹہ کی بلوچ آبادی والے علاقوں کو محروم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے موجودہ صوبائی حکومت بھی سابقہ روش پر گامزن ہے اب بھی بلوچوں کی ترقی و خوشحالی اور انہیں روزگار دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں تعصب اور نسل پرستی پر مرکوز پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی لیویز کی جو آسامیاں ہیں جو آبادی کی تناسب کے حوالے سے مختص کئے گئے تھے انہیں صرف اس لئے معطل کیا گیا کیونکہ اکثریتی بلوچوں کو روزگار مل رہا ہے لیویز کی آسامیوں کیلئے ٹیسٹ ، انٹرویو سمیت تمام مراحل مکمل کر لئے گئے تھے حکمرانوں نے آسامیوں کو اس لئے ختم کیا کہ چند بلوچوں کو روزگار میسر آ رہا تھا انہوں نے کہا کہ نہ صرف بلوچوں اور پشتون اضلاع کے لوگوں کے ساتھ بھی ناانصافی برتی گئی ہے حکمران عوام کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام اور رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں اور اب اقرباء پروری ، کرپشن اور صوبائی حکومت کے ذریعے اپنے من پسند ، سیاسی جیالوں کو روزگار دینے کے پالیسی اپنائی جائے گی میرٹ کی آڑ میں تمام اس کی دھجیاں اڑانے ٹھان لی گئی ہے انہوں نے کہا کہ سبی میں چاکر خان یونیورسٹی کے قیام پر اعتراض کے بعد اس نام کو تبدیل کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہے چاکر خان یونیورسٹی کے نام کو تبدیل کرنا تعصب اور نسل پرستی ہے جس سے نفرتیں بڑھیں گی جو برادر اقوام کو آپس میں دست و گریباں کرنے کی گہری سازش ہے حکمران یونیورسٹی کے نام تک کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں سبی میں یونیورسٹی کے قیام جو میر چاکر خان رند کے نام سے منسوب ہے نام تبدیل کرنے کی کوشش تنگ نظری ہے بلوچوں کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ کو تبدیل کرنا ممکن نہیں یہ حقیقت ہے کہ بولان کے میدانوں میں بلوچ فرزندوں نے ماضی میں تاریخی کارنامے سرانجام دیئے ہوئے سامراجوں کا جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا ان کی مثال نہیں ملتی بولان اور سبی کے میدان ، مہر گڑھ کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ و تہذیب بلوچ وطن کا مسکن رہا ہے موجودہ حکمران تنگ نظری اور تعصب کی بنیاد پر بلوچوں کو مزید معاشی و معاشرتی طور پر پسماندہ و بدحال رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں اس سے بلوچوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہونا فطری عمل ہے اب تو تعلیمی اداروں میں بھی نسل اور زبان کی بنیاد پر داخلے اور فیصلے کئے جاتے ہیں اور تعلیم کی زبوں حالی کا سبب بن رہی ہے اگر حکمران تعلیم کے فروغ علم و آگاہی اور تعلیمی ایمر جنسی چاہتے ہیں تو بلا رنگ و نسل اقدامات کریں آخر میں انہوں نے کہا کہ فوری طور پر فیڈرل لیویز کی آسامیوں کو بحال کر کے بھرتی کا عمل شروع کیا جائے تعلیمی امور میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے بلوچستان کے اکثریتی بلوچ ڈویژن و اضلاع جن کو ترقیاتی اسکیموں میں نظر انداز کیا گیا ہے جس سے احساس محرومی بڑھی ہے اس کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں ۔