یورپی یونین کے رکن ممالک کے رہنما پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے ترکی سے حتمی معاہدے پر بات چیت کے لیے ایک بار پھر جمعرات کو ملاقات کر رہے ہیں۔
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان اس امر پر معاہدہ طے پانے میں اب بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جو حل نہیں ہو سکے ہیں۔ برسلز میں ہونے والی اس میٹنگ میں جمعہ کو ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو بھی شرکت کرنے والے ہیں۔ گذشتہ سال دس لاکھ سے بھی زیادہ پناہ گزین غیرقانونی طور پر یورپ میں داخل ہوئے جن میں سے ایک بڑی تعداد ترکی سے یونان آنے والوں کی تھی۔ پناہ گزینوں سے متعلق مجوزہ منصوبے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ترکی سے یونان پہنچنے والے تمام پناہ گزينوں کو واپس بھیج دیا جائے گا اور ہر واپس بھیجے والے شامی شہری کے بدلے ترکی میں پہلے سے پناہ گزین شامیوں میں سے ایک کی یورپ میں باز آباد کاری کی جائے گی۔ گذشتہ ہفتے جس اجلاس میں اس منصوبے پر بات ہوئی تھی اس میں یورپی یونین کے رہنماؤں نے کہا تھا کہ ان منصوبے پر عمل در آمد کے بدلے ترکی کے شہریوں کو یورپی ممالک میں جون سے بغیر ویزے کے داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ یورپ کے رہنماؤں نےگذشتہ برس مالی تعاون کی جو پیش کش کی تھی اس میں تيزي لانے کا بھی وعدہ کیا تھا اور کہا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کے لیے دوبارہ بات چیت کا سلسلہ بھی جلد شروع کیا جائے گا۔

یورپی یونین چاہتی ہے کہ ترکی ان تارکینِ وطن کو واپس لے جو مہاجرین کا درجہ حاصل کرنے کے اہل نہیں اور ترکی اپنے پانیوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرے۔ ان تمام اختلافات کے جاوجود یورپی کمیشن کے سربراہ زان کلاڈ جنکیئر کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا اعتماد ہے کہ پناہ گزینوں سے متعلق کسی معاہدے پر پہنچا چا سکتا ہے۔ ادھر توقع کی جا رہی ہے کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اس میٹنگ میں موسم سرما سے لیبا کی جانب سے بڑی تعداد میں پہنچنے والے پناہ گزینو ں سے متعلق لوگوں کو خبردار کریں گے۔ ابھی تک ترکی سے یونان پہنچنے والے پناہ گزين اور یہ راستہ بحث کا موضوع رہا ہے لیکن لیبا سے سمندر کے ذریعے اٹلی بھی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے پناہ گزین یورپ کا رخ کرتے رہے ہیں۔