|

وقتِ اشاعت :   March 18 – 2016

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ صوبے کے بہت سے مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اور اپنی پسماندگی کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں، ون یونٹ ٹوٹنے سے لیکر آج تک صوبے میں ہم خود ہی حکمران رہے ہیں، کسی غیر نے یہاں حکمرانی نہیں کی، یہاں کے لوگوں کو منافقت کی سیاست کی بھینٹ چڑھایاگیا، ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیرزمین پانی نکال کر بے دردی سے استعمال کیا گیا اور کروڑوں سالوں کے پانی کے ذخائر کو 20سے 30سال کے دوران ختم کر دیا گیا ، اب سوچنا ہوگا کہ ان ذخائر کو کیسے بحال کیا جائے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور سدرن کمانڈ کے زیر اہتمام بلوچستان میں پانی کے مسائل کے حوالے سے منعقدہ سیمینار کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، صوبائی مشیران عبیداللہ بابت ،سردار رضا محمد بڑیچ، جی او سی 33ڈویژن میجر جنرل اظہر حیات، رکن صوبائی اسمبلی ثمینہ خان ، میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ ،ملک بھر سے آئے ہوئے ماہرین آب ، سول اور عسکری حکام نے سیمینار میں شرکت کی۔ تقریب سے وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، صوبائی وزیر پی ایچ ای نواب ایاز خان جوگیزئی، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ اور چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے بھی خطاب کیا، سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ پانی کے بے دریغ استعمال کو روکنے اور مختلف شعبوں میں اصلاح و احوال کے لیے موثر قانون سازی کر کے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائیگا، اس حوالے سے سخت اور تلخ فیصلے کریں گے کیونکہ ہمارے نزدیک سیاسی مفاد سے زیادہ عوامی مفاد ات عزیز ہیں، تلخ فیصلوں کے ذریعے اگر ہم آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کر کے اور ان کے لیے ایک بہتر صوبہ چھوڑکر جائیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کے وسیع تر مفاد میں حکومت کی رٹ کو ہر صورت قائم کیا جائیگا، بدقسمتی سے اس وقت نہ تو محکمہ مواصلات کا قلی سڑک پر نظر آتا ہے اور نہ ہی استاد سکول میں اور ڈاکٹر اور ڈسپنسر ہسپتالوں میں جاتے ہیں، جو شخص حکومت سے تنخواہ لے گا اسے اپنے فرائض انجام دے کر اپنی تنخواہ کو حلال کرنا ہوگا تب ہی معاشرے میں سدھار آسکتا ہے ، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کے نزدیک خلق خدا کی خدمت سے بہترین عبادت کوئی نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کی رٹ بھی قائم کریں گے اور بلوچستان کو بھی بدلیں گے، وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں شکایات سیل کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے اور بلدیاتی نمائندوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے غیر حاضر اساتذہ، وال مین، ڈسپنسر اور ڈاکٹروں کے بارے میں شکایات درج کرائیں تاکہ ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جا سکے، انہوں نے کہا کہ بحیثیت وزیراعلیٰ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ان سرکاری ملازمین کے خلاف کاروائی کریں جو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیکر گھروں میں بیٹھے ہیں، پانی کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ پانی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے پانی کے بغیر سولائزیشن کا تصور نہیں انہوں نے انڈس سولائزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ سولائزیشن پانی کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے، انہوں نے کہا کہ ژوب سے لیکر پنجگور تک قدرتی چشمے اور کاریزات ٹیوب ویلوں کی بہتات کی وجہ سے خشک ہو گئے، ہم نے اپنا پانی کھو دیا، اب اسے پانے کا طریقہ ہم نے ہی ڈھونڈنا ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پنجاب میں کثیر المنزلہ عمارت کی این او سی ایک ماہ سے کم مدت میں مل جاتی ہے تاہم وہاں سخت قوانین کی وجہ سے ٹیوب ویلوں کی این او سی لینے کے لیے سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے، اس حوالے سے بلوچستان میں بھی قانون سازی کر کے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائیگا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں ڈیموں کی عدم دستیابی کے باعث مون سون بارشوں کے دوران تقریباً 5ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی ضائع ہو جاتا ہے، ہم مرحلہ وار چھوٹے اور بڑے ڈیم بنائیں گے ، اس کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت اور ڈونرز سے بھی فنڈز کے حصول کی کوشش کی جائے گی، کوئٹہ کے پانی کے مسائل کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے پاس کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کے چند متبادل ذرائع بھی موجود ہیں، جن میں انڈس کے پانی کو پائپ لائن کے ذریعے کوئٹہ تک پہنچانا اور بولان میں تمام سال بہنے والے پانی پر بند باندھ کر وہاں سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی بھی شامل ہے، اگر عزم پختہ ہو تو راستے خود بخود نکل آتے ہیں، ہم کوئٹہ کو پانی کے بحران کی وجہ سے ویران نہیں ہونے دیں گے، یہ ہمارا عزم ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی سرزمین دی ہے جہاں چار موسم ہیں ، پہاڑ ،میدان ،وادیاں اور طویل ساحل ہیں ان تمام قدرتی وسائل اور نعمتوں کا فائدہ اٹھا کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر بلوچستان دے سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ گوادر ، پسنی اور جیونی میں ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب کے ذریعے ہم وہاں پانی کی کمی کے مسئلے کے حل کی جانب جا رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف ، پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کا واضع ویژن رکھتے ہیں، ہم مخلوط حکومت میں شامل ساتھیوں ، صوبائی کابینہ اور سدرن کمانڈ کے ساتھ ملکر کوئٹہ کو بہترین شہر بنا کر جائیں گے، سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ محکموں کی کارکردگی کے حوالے سے بلوچستان میں حکومت کی رٹ کی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے، قانون کی حکمرانی کے لیے بیوروکریسی کو سیاسی سپورٹ ملنے سے بہت سے امور میں بہتری آ سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ جہاں عزم ہو وہاں راستے آسان ہو جاتے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں پرامن ماحول فراہم کر دیا ہے، اب یہ سرکاری ملازمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ماحول میں اپنے فرائض محنت اور خلوص نیت سے سرانجام دے کر حکومتی رٹ کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں، جو لوگ تنخواہیں لے رہے ہیں انہیں اپنی ذمہ داریاں بھی انجام دینی چاہیں، وفاقی وزیر نے کوئٹہ سمیت بلوچستان میں پانی کی صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے عوام اور زمینداروں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص فلڈ ایریگیشن کے بجائے ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے نہ صرف بہتر زرعی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ پانی کی بچت بھی ہو سکتی ہے، صوبائی وزیر نواب ایاز خان جوگیزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پانی کے ضیاع کو روکنے اور اس کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے عوام میں شعور پیدا کرنا ہوگا، جس کے لیے سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے، انہوں نے کہا کہ ایسی فصلوں اور باغات کے فروغ کی ضرورت ہے جن کے لیے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ گھریلو سطح پر بھی پانی کے کم استعمال کے لیے خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔