کو ئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آگنائزیشن آزاد کی جانب سے چیئرمین زاہد بلوچ کی اغواء نما گرفتاری کو دوسال کا عرصہ مکمل ہونے پرآج 18مارچ کو بلوچستان بھر میں شٹرڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال کیا گیا۔ ہڑتال کے باعث قلات، کوئٹہ، آواران، پنجگور، تربت، گوادر سمیت بلوچستان کے تمام چھوٹے و بڑے شہروں کے تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند رہے۔ جبکہ ہڑتال کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بھی شدید متاثر رہی ۔ اس کے علاوہ آج کولواہ، آواران میں احتجاجی کیمپ، کراچی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ کا بھی انعقاد کیا گیا۔ان احتجاجی کیمپوں میں خواتین و بچوں سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں ، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے چیئرمین زاہد بلوچ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔اظہار یکجہتی کے لئے آنے والوں سے گفتگو کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی پروگراموں و تنظیم سازی کرنے والے کارکنان ریاستی اداروں اسکواڈز کا آسان ہدف ہیں۔ کسی کارکن کو اغواء کے بعد قتل کرنے کے لئے کسی سیاسی تنظیم حتیٰ کہ اسٹوڈنٹ تنظیم سے ہی اس کی وابستگی کافی ہے۔ بی ایس او آزاد سمیت دیگر سیاسی تنظیموں کے کئی کارکنان کو صرف ان کی سیاسی وابستگیوں کے بنیاد پر لاپتہ کیا جا چکا ہے، یا ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا چکی ہیں۔ ہماری تنظیم کے سینکڑوں کارکنان صرف اس جرم کی پاداش میں شہید و اغواء کیے جا چکے ہیں کہ وہ ریاستی دھمکیوں کے باوجود اپنے سیاسی جدوجہد کرنے کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔رسول جان بلوچ، کمال بلوچ، فرید بلوچ، سمیت تنظیم کے کئی زونل و مرکزی لیڈران تعلیمی اداروں، دورانِ سفر یا اپنے گھروں سے فورسز کے ہاتھوں اغواء ہوئے ہیں، بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئی ہیں۔ کراچی اور کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ کیمپوں میں اظہار یکجہتی کے لئے آنے والے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی کے صدر نغمہ اقتدار ،نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ،بلوچ رائٹس کونسل،ریلوئے ورکر یونین،کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں سمیت دیگر نے دوسال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود زاہد بلوچ کی عدم بازیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی اداروں سے اپیل کی کہ وہ زاہد بلوچ کو فوری بازیاب کریں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کے خلاف اگر ثبوت ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ ہزاروں سیاسی کارکنان کی اغواء نما گرفتاری اور عدالتی کاروائیوں کے بغیر ان کی حراستی قتل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ ان کی روک تھام کے برعکس شدت سے ایسی کاروائیوں کا جاری رہنا باعثِ تشویش ہے۔ احتجاجی کیمپ کے بعد کوئٹہ پریس کلب میں بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان بھر میں ہونے والے ہڑتال کی کامیابی کو ریاستی اداروں کے لئے بلوچ عوام کا واضح پیغام قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم نے ہڑتال کامیاب کرکے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے لیڈران کی بازیابی کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکن ریاستی جبر و مظالم کا شکار ہیں جو کہ ریاست کی جانب سے اقوام متحدہ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔اگر اقوام متحدہ اپنے بنائے ہوئے چارٹر کے مطابق جدوجہد کرنے والے کارکنوں کو تحفظ نہیں دے سکتی تو یہ مظلوم اقوام کے لئے باعثِ مایوسی ہے۔ بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے مہذب ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ زاہد بلوچ، زاکر مجید بلوچ، دین محمد بلوچ سمیت ہزاروں لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لئے اپنا فوری کردار ادا کریں۔ اگر ان ممالک و اداروں نے اپنی زمہ داریوں کے برعکس لاپتہ افراد کے حساس مسئلے کی جانب متوجہ نہیں ہوئے تو ہمیں خدشہ ہے کہ ریاستی ادارے اپنے تحویل میں موجود لاپتہ کارکنوں قتل کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دیں گے۔ کیوں کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران3ہزار سے زائد لاپتہ کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں مختلف علاقوں سے ملی ہیں جنہیں فورسز نے مختلف مقامات سے لوگوں کے سامنے سے اغواء کیا تھا۔