|

وقتِ اشاعت :   March 20 – 2016

چند سال پہلے کی بات ہے باہر کے ایک میگزین میں ایک آرٹیکل چھپا تھا جس کا عنوان تھا “Creepin Sands”اس میں پیشنگوئی کی گئی تھی کہ افغانستان سے جو ریت آہستہ آہستہ مغربی بلوچستان کی طرف بڑھ رہی ہے وہ تیس ‘ چالیس سال کے عرصے میں ساحل سمندر تک پھیل جائے گی زیر زمین سطح آب خشک ہوجائے گا اور سارا علاقہ بنجر ہو جائے گا لوگوں کو پینے کا پانی تک نہیں ملے گا اور وہ نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے اس طرح پور اعلاقہ ویران اور صحرابن جائے گا۔ آرٹیکل میں یہ بھی وضاحت تھی کہ ایسی صورت حال دنیا کے کئی حصوں میں پہلے بھی پیدا ہوتی رہی ہے جہاں جب بارشیں کم ہوئیں تو زیر زمین پانی کی سطح گرتی گئی وہاں کے لوگوں نے اپنی زمینوں کی آبیاری کے لئے زیر زمین پانی پرتکیہ کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سطح آب تیزی سے گرتی چلی گئی اور ایک دن ختم ہو کر رہ گئی یوں لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا اور وہ علاقے ریگستان بن گئے ۔ جہاں تک مغربی بلوچستان کا تعلق ہے 1950ء تک یہاں کاریزیں عام تھیں چشمے تھے جن میں سے بعض سے دو‘ تین کیوسک پانی بہتا تھا یہاں تک کہ کوئٹہ میں Artseion well بھی تھے سارے علاقے کی آبیاری ان ذرائع پر تھی مگر جب رفتہ رفتہ موسمی حالات بدلتے گئے بارشیں کم ہوتی گئیں تو زیر زمین سطح آب گرنے لگی کاریز اور چشمے خشک ہوگئے لوگو ں نے کنویں کھودے اور پھر ٹیوب ویل لگائے ۔اس میں حکومت نے بھی ان کی مدد کی اور بہت سے ٹیوب ویل سرکاری طورپر لگائے گئے ۔ ٹیوب ویل لگانے کا عمل اب بھی جاری ہے نتیجہ یہ نکلا کہ زیر زمین سطح آب مزید گرنے لگی اور مسلسل گرتی جارہی ہے ۔ 1960ء تک جہاں زیر زمین سطح آب ساٹھ فٹ پر تھی اب وہاں سات سو ‘ آٹھ سو پر چلی گئی ہے ان میں سے بعض اس گہرائی سے بھی پانی کھینچنے میں ناکام رہے ہیں باغات خشک ہورہے ہیں اور درخت کاٹے جارہے ہیں ۔اس کیفیت سے نمٹنے کے لئے حکومت کیا کچھ سوچ رہی ہے سردست کوئی واضح منصوبہ سامنے نہیں آیاالبتہ صوبے میں چند مقامات پر بڑے ڈیم بنائے جارہے ہیں ان میں سے چند پر کام بھی شروع ہوچکا ہے ان کا پانی آبپاشی کیلئے استعمال ہوگا اس سال کچھ بند Check Dams نانے کی بھی تجویز ہے ۔ اصل مسئلہ زیر زمین سطح آب کو مزید گرنے سے روکنے بلکہ بڑھانے کا ہے ۔ اس لحاظ سے کچھ بڑ ے ڈیم یا چند چھوٹے ڈیموں کی اس مقصد کے لئے افادیت بہت محدود ہوگی۔قلات اور مکران ڈویژنوں میں مختلف مقامات پر ماضی کے پتھر اور مٹی کے بنائے ہوئے بندوں کے آثار ملتے ہیں ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کو صدیوں پہلے آتش پرست آبادی نے آبیاشی اور اصلاح اراضی کی غرض سے بنایا تھا مقامی لوگ ان کو گیر بند کہتے ہیں ان بندوں سے جو بڑے تھے وہ سب کے سب برساتی نالوں کے منہ پر ہیں جو غالباً آبپاشی کے لئے تھے چھوٹے بند پہاڑیوں کے دامن اور میدانوں میں ہیں یہ برساتی پانی کو ضائع جانے سے روکنے اور اصلاح اراضی کی غرض سے ہونگے ان گیر بندوں کے متعلق Archaeological Survey of Indiaکی رپورٹ میں وضاحت ہے ۔کچھ عرصہ پہلے صوبے کے محکمہ جنگلات کے ادارہ تحفظ اراضیات نے بعض علاقوں میں چھوٹے بندبنائے اور گڑھے کھودنے کا کام کیا ۔ اس کو آگے نہیں بڑھایا گیا ۔اگرچہ حکومت اس وقت صوبے کو ہر جہت ترقی دینے کے لئے کوشاں ہے مگر انسانی زندگی کا دارومدار پانی اور صرف پانی پر ہے ۔ جہاں پینے کا پانی نہیں ہوگا وہاں محلات بھی ہوں، رہے گا کون ؟ اس لحاظ سے یہ صورت حال پریشان کن ہے ۔یہ صحیح ہے کہ انحصار بارش پر ہے جو دست قدرت میں ہے لیکن دنیا امید پہ قائم ہے ۔بارش کے پانی سے کماحقہ استفادہ کے لئے انسانی کوشش لازمی ہے ان حالات میں بڑے پیمانے پربندوں Check Damsبنانے کی ضرورت ہے جہاں بارش کا پانی جمع ہوگا اور یوں جذب ہونے سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوگی۔ ایسے بندات کی فوری ضرورت وقت کا تقاضا اور ان کی افادیت مسلمہ ہے ۔