|

وقتِ اشاعت :   March 21 – 2016

حب:  بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ وسابق وزیر اعلیٰ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ہمیں اقتدار کی حوس نہیں ہم بلوچستان میں حق حاکمیت چاہتے ہیں اور اگر اپنا حق مانگنا اور اپنے ننگ وناموس اور عزت و آبرو تشخص کا تحفظ کرنا گناہ ہے تو یہ گناہ ہمارے آباؤ اجداد بھی کرتے آرہے ہیں ہم بھی کر رہے ہیں اور ہماری آنے والی نسلیں بھی کرتی رہیں گی ایسی ترقی ہرگز نہیں چاہتے جسکی آڑ میں ہماری سرزمین پر قبضہ بلوچ قوم کے تشخص کو مسخ اور جہاں کوئی بلوچ چوکیدار ی کے لئے بھی لائق نہ سمجھا جائے حکمران اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والوں کے سروں کی قیمت مقرر کر رہے ہیں لیکن قانون شکن ڈکٹیٹر مشرف کو باآسانی فرار کا راستہ دے دیا گیا ان خیالات کا اظہار انہوں نے حب میں ایک بڑے جلسے عام سے خطاب کر تے ہوئے کیا جلسہ سے بی ایس او کے چیئرمین نذیر بلوچ ،بی این پی کے سینئر نائب صدر عبدالولی کاکڑ ، رؤف مینگل ،بی ایس او کے وائس چیئرمین ڈاکٹر عزیز بلوچ ،بی این پی کی مرکزی کمیٹی کے رکن وضلعی صدر لسبیلہ محمد قاسم رونجھو ،مرکزی رہنماء حاجی زاہد بلوچ سنیل کمار کاچھیلا ،بی ایس او حب زون کے آرگنائزر نذیر مینگل ،بشیر بلوچ ،عبدالحمید رونجھو نے بھی خطاب کیا سردار اختر جان مینگل نے کہاکہ کٹھن حالات میں آج کے جلسہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت بلوچستان نیشنل پارٹی کو ختم نہیں کر سکتی اور آج کا یہ جم وغفیر بلوچستان کے احساس محرومی کی ظلم و زیادتیوں کی گواہی دے رہا ہے کیونکہ جو لوگ آج یہاں جمع ہوئے ہیں وہ بے سروسامان کی حالت میں یہاں پہنچے ہیں اور آج کے اس جلسہ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہ ایک وقت کی روٹی کے کھانے کیلئے پریشان ہیں اور اپنے بچوں کے پیروں میں ایک نیا جوڑا چپل بھی نہیں پہنا سکتے وہ آج اس جلسے میں ہماری شکلیں دیکھنے نہیں آئے بلکہ ان سب کو یہ احساس ہے کہ وہ بلوچستان جو اس ظلم و زیادتی کی چکی میں پس رہا ہے بلوچستان ہر وہ گاؤں محفوظ نہیں جہاں پہلے خوشیاں منائی جاتی تھیں آج وہ بستیاں قبرستان بن چکی ہیں اور ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرسکتا ہے اور انہیں اس ظلم کے چنگل سے نکالنے کی جرات کوئی رکھتا ہے تو وہ ہے بی این پی جو کہ بلوچستان کے غریب مظلوم محکوم عوام کی جماعت ہے انھوں نے کہاکہ حکمرانوں اور قوتوں کی بلوچستان کی سرزمین اور بلوچ قوم پر ظلم و زیادتیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کیونکہ کونسا ایسا دور نہیں گزرا ہو جس میں حکمرانوں نے اہنے ظلم کی کیل بلوچستان کے ننگ وناموس میں نہ ٹھوکی ہو گی کوئی ایسا شاہدہی حکمران ہو جس نے اپنے ظلم وزیادتیوں کے انبار کے بوجھ بلوچستان پر نہ ڈالے ہونگے کوئی ایسا حکمران گزری ہو چاہئے وردی میں رہا ہو یا پھر مخمل کی شیروانی میں ہو ہا چاہئے جوڑ یدار و پجامے میں رہا ہو اور دوتی میں رہا ہو اس نے بلوچ قوم کے ساتھ ظلم و زیادتی اسقدر کئے ہیں جو علی نے کافر کے ساتھ اور اسرائیل نے فسلطینیوں کے ساتھ نہ کئے ہوں اور ہندوستان نے کشمیریوں سے نہ کئے ہوں لیکن قابل قادر اور تعریف ہے وہ قوم جو 70سال ظلم وزیادتیوں کے باوجود بھی اسکی نہ گردن جھکی اور نہ ہی اسکی کمر جھکی ہے آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں وہ شاہد آج کے اس اجتماع میں بھی موجود ہوں جو پیراں سری کی عمر میں ان سے انکا بازو انکا لخت جگر چھینا گیا ایسی مائیں بہنیں جن سے انکے بڑھاپے کا سہارا ان حکمرانوں نے چھین لیا سردار اختر مینگل نے کہاکہ بلوچوں کو کس جرم کی سزادی جارہی ہے اور کس جرم کی سزادی جارہی ہے انھوں نے کہاکہ جو ظالم تھے وہ آج مظلوم کہلا رہے ہیں اور جو ہم مظلوم تھے جن سے دھرتی چھینی گئی ہماری ثقافت زبان عزت و آبرو چھینی جارہی ہے انہیں اس ملک کا غدار کانام دیا جارہا ہے انھوں نے کہاکہ نام بلوچ غیرت مہمان نوازی عزت وننگ وناموس کا نام ہے لیکن اس ملک میں 70سالہ تاریخ نے اس نام کو بدبخت قوم کے نام سے بدل دیا اور اس وقت بلوچ قوم اپنی سرزمین کا مالک ہوتے ہوئے بھی اجنبی بن کر رہ گیا ہے اور اپنا ننگ وناموس کا تحفظ نہیں سک رہا بلوچ اپنی سرزمین پر رہتے ہوئے وہ بوڑھا شخص اس انتظار میں ہے کہ اس دن اسکے لئے سرکاری فنڈز سے کوئی اسکول اسپتال بنتا ہے یا سڑک تعمیر ہوتی پانی کا منصوبہ آتا ہے کوئی نوکری ملتی ہے آج کا بلوچ اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں بلکہ آج وہ اس انتظار میں ہے کہ اسکے بیٹے کی لاش کب آئے گی آج وہ ماں اس انتظار میں ہے کہ اسکے بڑھاپے کا سہارا جو لاٹھی بنکر اسکے بڑھاپے کا سہارا بنے گا آج اسکی لاش بھی اس قدر مسخ کر کے لائی جاتی ہے کہ وہ دیکھنے کے لائق نہیں رہتی انھوں نے کہاکہ حکمرانوں کی ان ظلم وزیادتیوں کے بدلے ہم آخر کب اپنی ماؤں اور بہنوں کی سسکیاں برداشت کرتے رہیں گے اور کب اپنے سروں کی پگھڑی جو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے سروں پرر کھی ہے اُسے حکمرانوں کے بوٹوں تلے روندتے ہوئے دیکھتے رہیں گے آخر کب تک ہر چیز کی کوئی حد ہو تی ہے سردارا ختر مینگل نے کہاکہ ہماری تاریخ اور ثقافت کو نہست ونابوت کر کے پیش کیا جارہا ہے انھوں نے کہاکہ ایک غیر مذہب انگیز بھی بلوچوں کی تاریخ اور ثقافت پر فخر کرتا تھا لیکن آج کے حکمفران اس دھرتی کے مالک کو چور اور ڈاکو کہتے پھر رہے ہیں انھوں نے کہاکہ بلوچستان کے ساحل وسائل پر پنجاب اور وفاق ڈاکہ ڈال رہا ہے ہمارے سونے چاندی جوہرات کے ذخائر اور سوئی گیس لے جائی جارہی ہے ہمارے سرزمین پر قبضہ کیا جارہاہے پھر بھی ہم چور تم ساہو کار یہ کہاں کا انصاف ہے انھوں نے پنجاب اور وفاق کو متوجہ کرتے ہوئے کہاکہ بلوچوں کو خوبصورت بنگلے اورسونے کے زیورات مال ودولت نہیں چاہئے ہمیں صرف عزت سے رہنے دو ہم عزت سے جینا چاہتے ہیں سردارا ختر مینگل نے کہاکہ جب حب میں ہاؤسنگ اسکیمیں بن رہی تھیں اور صنعتوں کا جال بچھایا جا رہا تھا اس سے قبل پٹ فیڈراور کیرتھر کینال نکالی گئی اسوقت بھی آج کل کی طرح گوادر کی ترقی جو لوگ بغلیں بجارہے ہیں بالکل اسی طرح سے ہر باتیں لیکن انجام کیا ہوا کہ بلوچستان میں اراضیات کے موضع اور خسرے بدل کر انہیں پنجاب طرز چک نمبر کے نام دیئے گئے پھر حب میں الہ آباد ٹاؤن اور خوجہ سوسائٹی بنائے گئے سردار اختر مینگل نے کہاکہ اس وقت حب کی ٹاؤن اسکیموں اور صنعتوں کی ہم نے اور ہمارے آباؤ اجداد نے مخالفت محض اس وجہ سے کی یہ ترقی بلوچوں کیلئے نہیں لسبیلہ اور بلوچستان کی سرزمین کے سائلوں کیلئے نہیں بلکہ باہر سے آنے والے قبضہ گیر وں کیلئے یہ سب کچھ ہو رہاہے انھوں نے کہاکہ کوئی بھی ترقی کے خلاف نہیں لیکن ایسی ترقی کا کیا کریں جہاں پر اس سرزمین کے اصل وارثوں کو چوکیداری کی نوکری بھی نہ ملے اور آلودگی امراض اسکا مقدر بنے تو ایسی ترقی نہیں چاہتے بھائی ہمیں ایسی ترقی سے ہم ایسے ہی بھلے انھوں نے گوادر کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہاکہ گوادر کی ترقی اور بلوچستان کی خوشحالی کا راگ الاپ کر ایک مرتبہ پھر بلوچستان پر یلغار کی سازشیں رچی جارہی ہے سردار اختر جان مینگل نے کہاکہ پنجاب اور وفاق گوادر کی ترقی میں حقیقی طور پر اگر مخلص ہیں تو وہ دو قدم آئیں گے تو ہم چار قدم اسکی طرف بڑھائیں گے لیکن ترقی کے نام پر اپنی سرزمین پر غیر وں کا قبضہ بلوچ قوم کے تشخص کو مٹانا ہمیں قبول نہیں اور اگر وہ ترقی اس چیز کوکہتے ہیں تو اسکی سرزمین پر بننے والے کارخانے میں اسے روزگار نہ ملے زمین کا مالک بلوچ نہ ہو تو ایسی ترقی نہیں چاہتے انھوں نے کہاکہ پاک چائنا اقتصادی کور ی ڈور کے منصوبے کے نام پر چائنا سے 46ارب ڈالر میں سے صرف90لاکھ ڈالر بلوچستان کیلئے مختص کئے گے ہیں وہ ائیرپورٹ بنائے جارہے ہیں کیونکہ ان جہازوں میں انکے نرم ونازک مزاج حضرات سفر کر سکیں کیونکہ گوادر کے بلوچ کے پاس کوچ کا کرایہ بھی نہیں ہے سردار اختر مینگل نے کہاکہ یہ ترقی بلوچوں کیلئے نہیں بلکہ پنجاب اور اسلام آباد کے سرمایہ دار طبقہ کی سہولت اور انکی دولت کو مزید بڑھانے کیلئے ہے اور یہ ترقی بلوچستان اور گوادر کی نہیں بلکہ بربادی کے متراف ہے انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ایسی ترقی کے حق میں جس میں بلوچ قوم کے وجود قومی تشخص زبان بلوچ کانام اور بلوچستان کا نام ونشان مٹے اس ترقی کی کبھی بھی حمایت نہیں کرینگے انھوں نے کہاکہ ایسی ترقی چاہتے ہوتو دو باتوں سے ایک فیصلہ کرنا ہو گا ایسی ترقی جس میں بلوچستان کا نام اور تشخص کا خطرہ ہو ایسی صورت میں ہمارے لئے قبرتیار کرو یا پھر اپنے لیئے کفن ساتھ لے آؤ انھوں نے کہاکہ طاقتور حکمرانوں کی طاقت سے بلوچوں نے کبھی انکا نہیں کیا اور بلوچستان کے بھر ے ہوئے قبرستان اور ویران سڑکیں اور گاؤں گڈن چیخ چیخ کر بتارہے ہیں جکہ پچھلے 70سالوں میں اسلام اور مذہب اور جمہوریت فرقہ واریت کے نام پر بلوچستان کے لوگوں کو قربان کیا جاتا رہا ہے سردار اختر مینگل نے کہاکہ جمہوریت اور آئین کا گلہ گھونٹنے والاجنرل مشرف کہا گیا کس طرح اُسے حکمرانوں نے چھوڑا اور جمہوریت کا جن دبئی جاکر بیٹھ گیا ہے اب پکڑو سے نہ اُسے انھوں نے کہاکہ ہم جو قوم کے حقوق کیلئے جدوجہد اور لڑ رہے ہیں انکی قیمت مقرر کردی گئی ہے اور جس نے ملک تورا اور آئین شکنی کی اسکے سر کی یقمت رکھو انھوں نے حکمرانوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہاکہ ملک اور آئین توڑنے والے مشرف کے سرکی قیمت رکھیں رقم وہ ادا کریں گے چاہئے اس کے لیئے کیوں نہ انہیں بلوچوں سے چندہ ہی کرنا پڑے سردار اختر مینگل نے کہاکہ کاس ملک میں قانون و آئین توڑنا گناہ نہیں لیکن حق مانگنا گناہ تصور کیا جاتا ہے اور اگر حق مانگنا گناہ ہے تو یہ گناہ ہمارے آباؤ اجداد نے بھی کیا ہے وہ خود بھی کر رہے ہیں اور انکی آنے والی نسلیں بھی حق مانگنے کا گناہ کرتی رہیں گی بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ آج وہ جو اقتدار سے فارغ ہیں آج انہیں بلوچستان کی پسماندگی افغان مہاجرین کا مسئلہ نظر آرہا ہے 2015 ؁ء میں کہتے تھے کہ بلوچستان کو سب کچھ مل گیا ہے اور 2015 ؁ء کے ستمبر کے بعد یہ کونسا طوفان آگیا کونسی سونامی اور زلزلہ آگیا کہ اب لوگ کہتے پھر رہے ہیں کہ بلوچستان کے حقوق نہیں دیئے جارہے جب اقتدار میں تھے تو سب کچھ اچھا ہے کی باتیں نہ کرتے تو اچھا نہیں تھا اسطرح سے عوام میں سرخرو ہوتے اور لوگ بھی اچھاکہتے اور اب جب اقتدار چلا گیا تو افغان مہاجرین بھی یاد آگئے اسوقتتو افغان مہاجرین آپ کی ایک بغل میں افغان مہاجرین اور دوسری میں شریف تھا آج گوادر پورٹ بھی نظر آرہا ہے تو کیا فائدہ انھوں نے کہا کہ حب جو کہ بلوچستان کا واحد سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے یہاں کی صنعتوں کے حوالے سے ایک نہیں بلکہ کئی صوبائی حکومتوں نے فیصلے کئے کہ حب کی صنعتوں میں 70 فیصد کوٹہ مقامی افراد کو روزگار دیا جائیگا انھوں نے کہاکہ فیکٹریاں حب میں لگائی گئی ہیں لیکن ٹیکس سندھ کراچی میں دیا جاتا ہے سرزمین بلوچستان کی استعمال کی جاتی ہے لیکن ملازمتیں باہر کے لوگوں کو دی جارہی ہیں تو پھر ہم کس طرح یقین دہانیوں پر یقین کریں کہ حب کی صنعتوں میں مقامیوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہیں اور انکے لئے صنعتی آلودگی کو مقدر بنا دیا گیا ہے تو پھر گوادر کی ترقی میں مقامیوں کے سلوک پر پر کیسے یقین کر سکتے ہیں سردار اختر مینگل نے ان دنوں حب میں ماحولیاتی آلودگی کچھ لوگوں کو یاد آرہی ہے یہ آلودگی اسوقت ختم ہو گی جب آپ اپنے ذہین سے پاکستان کی سیاسی آلودگی کو ختم کردینگے جو آپ لوگوں کے زہنوں میں چھا گئی ہے جس آلودگی کی وجہ سے آپ ہر دور اقتدار میں سرکاری کرسی کی طرف چلے جاتے ہو لہٰذا اس سیاسی آلودگی کو ذہنوں سے نکالو تو بلوچستان کی آلودگی خود بخود ختم ہو جائیگی سردار اختر جان مینگل نے بی این پی اور بی ایس او کے کارکنوں اور عہدیداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ انہیں اکثر شکایت ملتی ہیں کہ بی این پی کے نام سے کسی بھی صنعت میں اگر بھتہ خوری کا کوئی بھی الزام ثابت ہو اتو اور اس عہدیدار اور کارکن کیلئے پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں ہو گی انھوں نے کہاکہ نہ وہ بھتہلیتے ہیں اور نہ ہی بھتہ خوری کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں جس کسی کو بھتہ خوری کی سیاست کرنی ہے تو وہ بھتہ خوری پارٹیاں موجود ہیں وہاں جاسکتے ہیں انھوں نے کہا کہ ہمارے نوجوان بالخصوص بی ایس او کے ساتھی یہ بات سمجھ لیں کہ سیاست سے آپ کو کوئی روک نہیں سکے گا ابھی نوجوان ہو عمر کافی پڑی ہوئی ہے لیکن یہ عمر جس سے آپ گزر رہے ہو پھر واپس نہیں آئے گی لہٰذا اس عمر سے فائد ہ حاصل کرو اور اپنی پوری توجہ تعلیم کے حصول پر دو کیونکہ علم و ہنر ہوگا تو آگے چل کر دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل رہو گئے ورنہ ان پڑھ قوم کہلا ؤ گے جو کہ آنے والے وقتوں میں انتہائی خطرناک نام ہو گا انھوں نے کہاکہ آنے والے وقتوں میں بلوچ قوم کو ایک مضبوط اور پڑھی لکھی قوم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ تعلیم وہ بہترین ہتھیار ہے جس کی طاقت سے بڑی قوتوں کا مقابلہ آسان ہوجاتا ہے کیونکہ بندوق سے نکلی گولی کی آواز سڑک کے اس پار تک تو سنی جاسکتی ہے لیکن قلم کی سیاہی دنیا تک پھیل سکتی ہے سردار اختر مینگل نے جلسہ گاہ میں بیٹھے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیا وہ اقتدار کی دوڑ میں دوسروں کی طرح سب کچھ بھول کر اس دوڈ میں شامل ہو جائیں یا پھر وہی جدوجہد جو بلوچ قوم کی سربلندی کیلئے جس میں قید وبند اقتدار کی ہوس نہیں بلکہ ہمیں اپنے قوم کا ننگ ناموس عزیز ہے ہمیں بلوچستان میں حق حاکمیت چاہئے اسکے لئے ہمیں آپ عوام کا ساتھ اور حوصلہ چاہئے قبل ازیں سردار اختر مینگل نے حب میں ایک بڑے جلسہ کے انعقاد پر بی این پی اور بی ایس او لسبیلہ کے رہنماؤں اور کارکنوں کا شکریہ ادا کیا جلسہ سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنکے چیئرمین مینر نذیر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے بلوچ قوم و دنیا کے ان تمام مظلوم اقوام کے شہیداء کوسرخ سلا م پیش کرتے ہوئے کہاکہ جنہوں نے اپنے سرزمین و مادر وطن کیلئے جانیں قربان کی وہ آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں ان شہیداء نے عظیمقربانیاں دیکر اس سرزمین پر ہمیں وہ سوچ و فکر د ی ہے جو آج ہم اس دھوپ و گرمی میں بیٹھ ااپنے قائدین کو سن رہے ہیں انھوں نے کہاکہ بلوچستان کے اوپر ایک بہت بڑی یلغارآرہی ہے بلوچ سرزمین بہت بڑے خطرے میں پڑ رہی ہے بہت سے قوتیں ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی جانب رخ کر رہے ہیں ہمیں اسی جذبہ اتحاد و فکر کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا ہو گا ہر طرف سے مختلف قوتیں بلوچستان کی جانب رخ کررہے ہیں اس کی وجہ بلوچستان ساحل و سائل ہے 98سالوں سے بلوچستان میں خون کی جو ندیاں بہا ہی جارہی ہیں ہیں وہ صرف بلوچستان وسائل و ساحل کیلئے بلوچ قوم کی نسل کی کشی کی کر رہے اس کے باوجود بلوچ سرزمین کو فتح نہیں کر سکے اور آگے بھی نہیں کر سکیں گے بلوچ کے تاریخ کو پنجاب کے کالجوں اسکولوں اور ان کے کتابوں میں بہت غلط انداز میں بیا ن کیا جا رہا ہے بلوچ قوم کو کہنا بڑی زیادتی ہے سب سے بڑا چور و ڈکیٹ تو پنجاب خود ہے 68سالوں سے بلوچستان کے حقوق ساحل وسائل کو لوٹ رہے ہیں بلوچستان میں نسل کشی کر رہے ہیں بلوچستان کے بوڑھے ،بچے ،نوجوان اور نہ ہی خواتین محفوظ ہیں ہر طریقے بلوچستان میں ہمارے خلاف اپنائے گئے ہر عشرے میں بلوچ نسل کشی کیلئے نئے طریقے و حربے استعمال کئے گئے اجتماعی قبروں میں بلوچستان کو دفنایا گیا مسخ شدہ نعشیں پھینکی گئیں ہماری خواتین کی چارد تک محفوط نہیں رہے اور آگے بھی مختلف طریقوں سے بلوچوں کے خلاف سازشیں جاری کھنے کی منصوبی کر رہے ہیں حتیٰ کہ بلوچوں کو انکی سرزمین سے ہٹانے کی مزموم کوشش ہو رہی ہے لیکن ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے آپ کی اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے انھوں نے کہاکہ میں ان نام کے قوم پرستوں کو کہنا چاہتاہوں کہ کچھ ماہ قبل وزارت شپ ان کے پاس تھی وہ بلوچستان میں آباد مہاجرین کو بھول گئے تھے اور بلوچستان میں جو نسل کشی کی جارہی ہے ان کو بھی بھول گئے تھے کچھ مہینوں سے انکی بیانات میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے آئے انھوں نے بلوچ عوام کیلئے کیا کیا ہے اسلام آباد کی آرام دہ سیٹوں پر بیٹھ کر گوادر ،ریکوڈک بلوچستان کو بھیج دیا ہے بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کا دعوی ٰ بھی کیا گیا بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کیا ایمرجنسی فانذ کیا گیا ہے آئی ٹی بلوچستان یونیو سٹی میں بلوچوں کی تعداد ایک فیصد ہے بلوچستان یونیورسٹی میں چھاونی بنائی گئی ہے کہاں گئی ہے ڈاکٹر مالک و حاصل خان کی قوم پرستی وہ خود کو قوم پرست کہہ رہے ہیں بلکہ ایک اور پارٹی ،نیشنل پارٹی نظریاتی اور بی ایس او پجار نظریاتی جنم دیا ہے یہ تو بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی سازش ہے اور بلوچ قوم میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں اور اپنے آپ کو قوم پرست کہتے ہیں اس وقت بلوچستان سے جتنی بھی ناانصافیاں ہو ئی ہیں جبکہ وہ آپریشن آج بھی تسلسل سے جاری ہے انھوں نے کہاکہ محمود خان اچکزئی پشتون وبلوچ قوم کو لڑانے کی سازشیں کر رہے ہیں لیکن بلوچ پشتوں دونوں مظلوم قومیں ہیں آپس میں کبھی نہیں لڑیں گے انھوں نے مزید کہاکہ افغان مہاجرین بلوچستانی نہیں ہیں بلکہ وہ افغانستان سے آئے ہیں ایرانے سے آئے مہاجرین بھی بلوچستان میں نہیں رہ سکتے ہیں افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے ملک بدر کیا جائے گوادر میں مہاجرین کو آباد کرنے کی سازش کی جارہی ہے بلوچ قوم اقلیتی میں تبدیل ہو جائیں گے اپنی قومی تشخص و نوجوانوں نسل کو بچانے کیلئے ہم سب کو آگے بڑھنا ہو گا خاص کر نوجوان طبقہ اپنی تعلیم پر توجہ اور علم کو ہتھیار بنائیں جلسہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر عبدالوالی کاکڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں 67سالوں میں ہمیں ترقی ،تعلیم ،عزت سے محروم رکھا گیا محرومیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا جو کچھ لوٹنا چاہتے ہیں وہ لوٹ رہے ہیں اللہ تعالیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کو زندگی دے وہ کمزور ہو چکا ہے ضعیف ہے اور سردار اختر جان مینگل کو کس طرح یہاں تک پہنچایا ہے اوراللہ تعالیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کے نواسہ گورگین خان زندگی دے انشاء اللہ وہ ہمارے نسلوں سرزمین بلوچستان کی مٹی ،ساحل وسائل وتشخص کیلئے اپنا تاریخی ادب کو قیامرکھنے کیلئے سردار عطاء اللہ مینگل کے نقش وقدم پر چلیں گا انھوں نے کہاکہ چند لوگوں کے ذہن وغمان نہیں تھے کہ وہ وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں مگر بلوچستان میں وہ بھی وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں ہم کسی کے ذات کے خلاف نہیں ہیں لیکن منافقوں کے بالکل خلاف ہیں جو اپنی ملک سے غداری کر تے ہیں چاہئے وہ پشتون ہو چاہئے وہ بلوچ اور چایئے سندھی و پنجابی ہو اور وہ ظلم جعفر وصادق اس کا نسل اگر بلوچ ہو پشتون وسندھی ہو ان کے خلاف ہیں چاہئے وہ سردار ،نواب ،وزیر کیوں نہ ہو جو غاسب جو سرزمین بلوچستان کی مٹی سے وفا ء نہیں کر یگے اس کے خلاف ہیں ہماری بھوک افلاس ،اور غلامی میں جس کا تھوڑا بہت ہاتھ کی مذمت کرتے ہیں ہم ایسے دوستوں کو ساتھ لیکر چلتے ہیں جس کا وعدہ خلاف نہ ہو اس کا مٹی سے غداری نہ ہو اور سردار عطاء اللہ مینگل کی کاروان میں منافقت نہ اس کو ہم ساتھ لیکر چلتے ہیں 67سال میں اس دھرتی وملت نے اس وقاق وچوئلستان نے ہمیں بھوک افلاس بے علیم و گھر رکھا ہمارے صبر کا انتہا ہوچکا ہے ہمیں مزید نہ آزمایا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہو ہے ایسانہ ہو کہ یہ محروم ومظلوم لشکر قوم اپنے اباؤاجداد کی پُرانے کلہاڑیوں اور بندوق اٹھا کر ان کے پچھلے نہ بھاگیں اور آج تک بلوچستان اور اپنی عزت کی دفاع کیلئے بھاگ رہے ہیں انھوں نے کہاکہ آج ہمارے بلوچوں کی نعشیں سڑکوں پر بے یارو مدد گار گور کفن پھینکے جارہے ہیں اور اجتماعی قبریں برآمد ہو رہے ہیں اور اغواء نماء گرفتاریاں کی جارہی اور دہشت گردی کے نام پہ ایجنٹ غداری کے نام پر قتل و غارت کی جارہی ہے ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم بھی بندوقیں اٹھا ئیں انھوں نے کہاکہ نہ ہمیں پارلیمنٹ نہ اپنے عوام میں نہ ہی عدالت میں جانے کو چھوڑ ا جارہا ہے ہمیں کسی بھی جگہ برداشت نہیں کیا آخر ہم جائیں تو جائیں کہاں وہ کونسان راستہ ہے جس کا ہم انتخاب کریں تین تو راستے ہم نے اپنا ئے ہیں جب ہم اپنے عوام کے پاس جاتے ہیں جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے جبکہ پارلیمنٹ میں جانے کی کوشش کرتے ہیں تو جعلی مینڈنٹ کی طرح ہمارے سارے ووٹ ہماری جدوجہد مہر ومحبت کو سب کچھ کو تباہ کیا جاتا ہے جعلی مینڈنٹ دیکر دوسروں کو آگے لایا جاتا ہے اور جبکہ ہم عدالت میں جاتے ہیں تووہ لوگ عدالت سے پوچھتے کہ یہ جو باتیں کہہ رہے ہیں یہ 6نکات شیخ مجیب والے ہیں عوام خود فیصلہ کریں کہ ہم کونسا راستہ اختیار کریں اگر بلوچوں کو مارنے مٹانے کا سوچ کسی نے بنا رکھا تو یہ کبھی پورا نہیں ہوگا بی این پی سیاسی وجمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور مان رہے ہیں ہمیں اپنے عوام سے کوئی دور نہیں کر سکتا اور ہر وقت اپنے عوام کے بیچ رہینگے انھوں نے ایک پشتون نسل کے ناطے کہتا ہوں کہ اگر افغان مہاجرین مہمان ہیں تو مہمان بن کر رہیں ان کی تیس سالوں سے مہمان کرتے آرہے ہیں ان کے ہر دکھ درد میں شریک رہے اپنا کاروبار ،صنعت بزرگی مہمان کے سامنے رکھا اور مہمان نوازی کی لیکن انھوں نے ہمارے مہمان نوازی سے ناجائز فائدہ اٹھایا وہ مہمان کے بجائے میزبان بنے حقوق غضب کئے اگر مہمان ہیں تو مہمان کی حیثیت سے بیٹھیں اگر وہ ہماری خانہ و مردم شماری میں سیاست میں پارلیمنٹ میں مداخلت کرینگے نہ وہ بلوچ برداشت کرینگے سب سے پہلے انہیں پشتون برداشت نہیں کرینگے اور جو ایک ٹولہ ہے جو کبھی کھبار افغان مہاجرین کے نام سے بیانات دے رہے ہیں یہ ایک مخصوص ٹولہ ہے پشتون عوام کے نمائندے نہیں یہ لوگ ہیں جنہیں مرعات ،گورنر شپ وزرات بلوچ مخالفت پر ملی ہے انہیں بلوچوں اور پشتوں کو لڑانے و دست وگریباں کرانے کے لئے تحفے میں پارلیمنٹ میں جعلی مینڈنٹ دی گئی ہے اور انعام دیا گیا ہے انھوں نے مزید کہاکہ مشرف کے دور میں جو ڈیتھ اسکواڈ بنا اس نے بھی بلوچوں پر یہ ٹراہی کی آج بھی بلوچوں کے نوجوان و بوڑھے عزت سے زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ اس ملک میں سول وار شروع ہو چکا ہے جلسہ سے سابق ایم این اے عبدالرؤف مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حب بلوچستان کا گیٹ ہے یہ گیٹ وے اسوت بنا جب سردار اختر مینگل بر سر اقتدار و وزیر اعلیٰ تھے اور نیپ کی حکومت اور میر غوث بزنجو اس وقت کے گورنر تھے یہ انکی مرہون منت ہے کہ اس وقت بھی سازش ہورہی تھی کہ بلوچستان کا یہ حصہ جو کوسٹل ہائی وے کہلایا جاتا ہے جو انٹر نیشنل گیٹ وے کہا جاتا ہے مختلف وار کیئے جارہے تھے اس وقت کی قیادت نے یہاں کر حب ندی کے ساتھ کھڑے ہو کر کہاکہ یہ ہماری سرزمین ہے سر کٹھ جائے گی لیکن سرزمین کو نہیں دینگے انھوں نے کہاکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت اگر ان کی الفاظ و ذہینوں میں تلخی آتی ہے اس کے پیچھے بہت بڑی پس منظر ہے آج بھی ہم اپنے سرزمین ،گھر پہ چادر چار دیوری میں محفوظ نہیں ہیں جب ہم حقوق مانتے تو آپ ہمیں نہیں دیکھتے ہوجب ہم آواز اٹھاتے تو غذار قرار دیا جاتا ہے اب یہ سلسلہ بند ہو نا چاہئے بہت ہو گیا 70سال پہلے بھی بلوچستان میں سندھی ،بلوچ ،پشتون،سرائیکی قوم تھا جب تک اسٹیبلشمنٹ جعلی لیڈر شپ جعلی پارٹی بنا کر اس ملک کے اندر نہ ویلفیئر ریاست بنایاگیا نہ ہی جبری ریاست بنایا گیا بلکہ اس کو دہشت گرد ریاست بنادیا گیا مختلف انتہا پسندوں کو جنم دیا گیا اور مختلف طریقوں سے انکی پرورش کی جارہی ہے ہماری سقافت کو نست و نابود اور زبان کو تبا و برباد کیا جارہا ہے ہمیں کسی شکل ومذہب سے نفرت نہیں بلکہ ہم انسانیت کی سیاست کرتے ہیں ہم جمہوریت و عدم تشدد کی سیاست کرتے ہیں اس ملک کے اندر حق حاکمیت سائل وسائل کی سیاست کر تے آرہے ہیں اپنے وسائل کی اختیار چاہتے ہیں جب ہم اختیار کی بات کرتے ہیں تو مختلف حربوں سے ہمارا ستحصال کیا جاتا ہے انھوں نے کہاکہ پورے بلوچستان سے آج لوگ جوق درجوق بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت کر رہے ہیں ہمارے پاس اقتدار نہیں ہے انھوں نے کہاکہ جعلی لیڈرشپ سے لوگ 23ووٹوں سے گورنر و اسپیکر بنے اور پنجگور میں الیکشن میں نہیں آئے لیکن کے وزراء اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں انھوں نے کہاکہ جو لوگ الیکشن جیتے ہیں وہ اسمبلیوں سے باہر ہیں اور ہارنے والے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اس ملک میں اس طرح کے الیکشن کرائے گے اور جعلی لیڈر شپ لائیں گے تو مستقبل میں کیسے امن لائیں گے ہم چاہتے ہیں اس ملک میں تمام لوگوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق ملنا چاہئے جو ان کا حق ہے انھوں نے مزید کہاکہ ڈکٹیٹر مشرف اپنے آپ کو کمانڈو کہتے تھے اور کہا کرتے تھے میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں جب اسکی عدالت میں پیشی ہوتی تو وہ بستر پر لیٹ جاتے اور بیماری کا بہانہ بناتے انھوں نے کہاکہ بی این پی پارٹی نہیں بلکہ ختم ہو چکی ہے ہم انہیں بتادینا چاہتے ہیں کہ آئیں دیکھیں کہ بی این پی ختم ہو چکی ہے یاں مزید ابھر رہی ہے ایک جنرل آئین کی پالی کرتے و انسانیت کو روتے ہیں اور بر سر اقتدار میں آکر جمہوریت آئین کی تہس نہس کی بلوچوں کو شہید کیا اتنی بڑی مجرم کو پیپلزپارٹی نے گارڈ آف آنر پیش کیا اور موجودہ حکومت نے اتنے بڑے مجرم کو باعزت ملک سے باہر بھیج دیا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں صرف طاقتوں کا چلتا ہے انھوں نے مزیدکہاکہ ہم لسبیلہ کے نمائندوں کے خلاف ہرگز نہیں ہیں ہمارے لیئے قبائل شخصیت مہذیب قابل احترام ہیں اور ہم سنجیدہ سیاست کر رہے ہیں ہم بلوچستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ہم کسی پشتون کے خلاف نہیں ہم کہتے صرف یہی کہتے ہیں افغان مہاجرین باعزت طریقے سے چلے جائیں لیکن آج پختون ویلفیئر کمیٹی کے نام سے حب و لسبیلہ میں افغان مہاجرین کی آبادکاری کی جارہی ہے ہم کسی ویلفیئر اور اداروں کے خلاف نہیں لیکن یہاں پر ایک ویلفیئر کے نام پر افغان مہاجرین کو منصوبہ بندی کے ساتھ بسایا جارہا ہے جب یہاں پر افغان مہاجرین آباد ہونگے تو لاسی اقلیت میں تبدیل ہو جائینگے جلسہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی لسبیلہ کے صدر قاسم رونجھو نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ لسبیلہ جغفرائی کی حیثیت سے گوادر اور لسبیلہ دونوں ساحل بلوچ ہے اس حوالے سے حب خاص کر بلوچستان کا گیٹ وے کہلاتا ہے اور یہ ایک عرصہ سے صنعتی شہر کے طور پر جانا جاتا آرہا ہے آج کے دور پورا لسبیلہ انڈسٹریل لائز ہو چکا ہے لیڈا نے وندر اور اوتھل میں بھی صنعتی زون قائم کر دی ہے انھوں نے کہاکہ سی پیک کا جو پروجیکٹ ہے اس کے اثرات پورے بلوچستان پر پڑیں گے بلخصوص لسبیلہ گوادر کو ہر حال میں زیادہ پڑینگے جب ہماری جماعت یہ محسوس کیا کہ چائنہ گوادر اور ملک پر بڑی انویسٹمنٹ کر رہی ہے اس حوالے سے بلوچوں کے حق ہیں اس پر روشنی ڈالنے کیلئے اسلام آباد میں کامیاب APCکا انعقاد کیا گیا جس میں تمام پارٹیز کے قائدین نے بلوچوں کے حقوق کی تائید کی انھوں نے کہاکہ بلوچستان میں اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بلوچستان و بلوچ عوام کے ساتھ کیس طرح کا سلوک روارکھا گیا یہ سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے آج بھی روزگاری کی شرح ،تعلیمی پسماندگی ،صحت بھی ہمارے صوبے میں سب سے زیادہ ہے سہولیات کے لحاظ سے بھی دیگر صوبوں سے پچھلے ہے بلوچستان نیشنل پارٹی اس امر کیلئے جدوجہد کر رہی کہ ہم پورے بلوچستان میں بسنے والوں کیلئے جو اجتماعی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اجتماعی کوششوں سے ہی مسائل حل ہو تے ہیں اور ہماری نظریں لسبیلہ اور گوادر سی پیک پر ہیں عوام کے تعاون سے اپنے حقوق حاصل کرنے میں انشاء اللہ کامیاب ہو جائینگے آخری دم تک لڑینگے انھوں نے کہاکہ گزشتہ دس سے بارہ سالوں سے ملک بھر میں مردم شمار ی نہیں ہوئی اس سلسلے میں لسبیلہ خصوص لسبیلہ کے لوگوں سے گزارش ہے کہ جو روزگارکیلئے سلسلے میں کراچی و دیگر علاقوں کا رخ کرتے ہیں وہ جہاں کہیں جائیں مردم شماری کے وقت اپنی شناخت لسبیلہ سے ظاہر کریں اور اندراج بھی لسبیلہ کرائیں تاکہ ان کا ووٹ اپنے ڈسٹرکٹ سے باہر منتقل نہ ہو اور آج کل کوئٹہ میں بلوچ اقلیت میں تبدیل کا نعرہ لگ رہا ہے اور بلوچستان سے بلوچوں کا نام مٹانے کی سازش ہورہی ہے خاص کر بلوچستان چاکر خان یونیو رسٹی کے نام پر بعض لوگ اعتراض کر رہے ہیں اور کچھ ایسے معاملات ہیں جہاں طرح طرح کی آواز یں اٹھاہی جارہی ہے انھوں نے کہاکہ حبکو پاور ایک اور پلانٹ کوئلہ پر شفٹ کیا جارہا ہے جس سے جو ماحولیاتی آلودگی پید ا ہوگی اس کے حوالے سے انوائرمنٹ والے ہی بہتر بناسکتے ہیں حبکو پاور پروجیکٹ جب قائم ہو ئی تو گڈانی سمیت پڑوس کے علاقوں کو بجلی کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ نظر نہیں آرہے بلکہ ان کے ٹیکسز بھی حب لسبیلہ کے بجائے کراچی سمیت دیگر صوبوں میں جمع ہو رہے ہیں جلسہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء حاجی زاہد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان نیشنل پارٹی ایک سیاسی فکر نظریاتی پارٹی ہے بلوچستان نیشنل پارٹی حادثاتی یا کسی خواہشات پر بنی پر کوئی پارٹی نہیں ہے بی این پیبلوچستان کی ایک حقیقت بن چکی اور ہر گھر گلی گاؤں میں اسٹریٹ ڈسٹرکٹوں میں لوگوں کے دلوں میں پارٹی کی موجودگی احساس پائی جاتی ہے بی این پی بھر جدوجہد کا نام ہے جس طرح بلوچ قوم کو نست ونابود کرنے قومی تشخص ،وحدت کو ختم کرنے ساحل وسائل کولوٹنے کی کوشش کی گئی اسی طرح بی این پی کو بھی ختم کرنے کی ہر وقت ہر دور میں ختم کرنے کوشش کی گئی بی این پی پچھلے 18سالوں سے اقتدار میں نہیں لیکن سلام پیس کرتاہوں کہ اس کٹھن تحویل جدوجہد میں انھوں نے مایوس نہیں کیا چاہئے ہمارے قائدین کو مجبور کر ملک سے باہر جانے کا دور ہو چاہئے ڈیتھ اسکواڈ کادور ہو تمام حربوں نے پارٹی ورکوں نے ناکام کیا قابل تحسین ہے بی این پی کی قیادت ہر بوڑھے بچے نوجوان کے بازنوں پر ہے انھوں نے کہاکہ پنجگور میں حادثاتی پارٹی بنتے ہیں اسی طرح ٹوٹ جاتے ہیں اور بکھر جاتے ہیں اور وہاں حادثاتی پارٹی ختم ہو چکی ہیں انکی دفاتروں میں سردار اختر جان مینگل اور شہیداؤ کے تصاویر آویزاں ہیں جلسہ سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی وائس چیئرمین ڈاکٹر عزیز بلوچ ،حب زون کے آرگنائزر نذیر بلوچ ،بی این پی لسبیلہ کے سیکرٹری اطلاعات عبدالحمید رونجھو ،تحصیل حب کے جنرل سیکرٹری بشیر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچستان کی واحد جماعت ہے جو بلوچستان سرزمین کی حقوق کیلئے جدوجہد کر رہی ہے انھوں نے کہاکہ آج بلوچستان میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور بلوچوں کے مسخ شدہ نعشیں پھینکنے کا سلسلہ بھی تسلسل سے جاری ہے ۔