انگلینڈ کا فٹبال کلب ’آرسنل‘ جنگ زدہ علاقوں سے فرار ہونے والے عراقی بچوں کو فٹبال سکھا رہا ہے۔
آرسنل نے بےگھر عراقی افراد کے کیمپوں میں فٹبال پچز بنانے کے لیے بچوں کی فلاحی تنظم’سیو دی چلڈرن‘ سے ہاتھ مِلایا ہے۔ جنگ کی وجہ سے بےگھر ہونے والے بچوں اور مشہور اور دولت مند پریمیئر لیگ کا آپس میں کوئی میل نہیں لیکن ’آرسنل‘ کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ اس منصوبے سے بدترین حالات میں رہنے والے بچوں کو خوشی دینے میں مدد ملے گی۔ عراق میں جنگ کی آگ پھیلنے کے بعد بغداد کے نزدیک رہنے والی اسرا ( یہ ان کا فرضی نام ہے) اپنا بڑا سا گھر چھوڑ کر کیمپ میں آگئی تھیں۔ ان کے گھر میں ایک باغ تھا اب وہ شمالی عراق کے علاقے الواند میں ایک چھوٹے سے کارواں میں رہتی ہیں۔ اس کیمپ میں چھ ہزار سے زائد افراد رہتے ہیں۔ 12 سالہ اسرا نے بتایا کہ ’ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ ہر طرف بم اور دھماکے تھے اور ہم خوفزدہ تھے کہ کہیں کوئی راکٹ ہمارے گھر پر بھی نہ گِر جائے۔‘ان بچوں کا کہنا ہے کہ فٹبل سے انہیں اپنے مسائل بھولنے میں مدد ملتی ہے
’میں اپنے تمام دوستوں سے نہیں مل سکی صرف دو دوستوں کو خدا حافظ کیا۔‘ اسرا کا کہنا ہے کہ ’ابتداء میں میں بہت پریشان تھی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اپناگھر چھوڑ کر کس طرح اتنی دور جا سکتی ہوں۔ لیکن ہم کم از کم یہاں محفوظ تو ہیں۔‘ عراق کا یہ علاقہ نسبتاً محفوظ ہے۔ حالانکہ یہ فرنٹ لائن اور نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے قبضے والے علاقے سے چند گھنٹے کی دوری پر ہے۔ عراق میں جنگ کے سبب جنوری 2014 سے اب تک 30 لاکھ سے زائد افراد کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا جن میں آدھی تعداد بچوں کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ فٹبال کھیلنے سے ان کے گھر انھیں واپس نہیں ملیں گے لیکن امید ہے کہ اس سے انھیں خوشی ضرور ملے گی۔ جب اسرا سے پوچھا گیا کہ انھیں کیمپ میں کیا اچھا لگتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ سکول اور فٹبال۔
بچے بِچ پر جانے کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں
ایلیکس جو سو سے زائد مرتبہ انگلینڈ کے لیے کھیل چکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ ان بچوں سے اپنے حالات کا موازنہ نہیں کر سکتیں لیکن جب وہ بڑی ہو رہی تھیں اُس وقت فٹبال نے ان کی بہت مدد کی۔ لیکن جب وہ پریکٹس کرتی تھیں تو انھوں نے انگلینڈ کے لیے کھیلنے کا خواب دیکھا تھا تو فٹبال صرف ایک کھیل نہیں ہے لوگوں کی زندگی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ دو کیمپوں کے نزدیک فٹبال کی ہری بھری پِچ ان جنگ زدہ بچوں کے لیے کسی نخلستان سے کم نہیں جو بچوں کو کھیلنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کرتی ہے۔ اب تک ان پِچز پر ڈھائی ہزار سے زائد بچوں کو کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ ان میں سے ایک پِچ پر ایلکس نے صرف لڑکیوں کے لیے ٹریننگ سیشن رکھا ہے۔
ان بچوں کو جنگ کے سبب اپنے گھر اور دوستوں کو چھوڑ کر کیمپوں میں منتقل ہونا پڑا
پِچ پر پریکٹس کرتی لڑکیوں نے خواہش ظاہر کی کہ اگر وہ محنت سے پریکٹس کرتی رہیں تو کیا وہ آرسنل کے لیے کھیل سکتی ہیں؟ آرسنل نے ایلیکس کے علاوہ اس کیمپ میں ایک کوچ بھی بھیجا ہے جو لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں۔ فلاحی تنظیم سیو دی چلڈرن کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو یہ موقع فراہم کرنا بہت ضروری تھا کیونکہ یہ لڑکیاں قدامت پسند گھرانوں سے آتی ہیں اور اس طرح کے کھیلوں میں حصہ لینا ان کی تہذیب میں شامل نہیں ہے۔ ایلیکس ان لڑکیوں کے لیے ایک تحریک سے کم نہیں ایک لڑکی ہو کر عالمی سطح پر اپنی پہچان بنانا ان کے لیے عام بات نہیں۔ ان میں سے ایک لڑکی کا کہنا تھا کہ ’میں پِچ پر آنے کا بے صبری سے انتظار کرتی ہوں کیونکہ یہاں آ کر میں اپنے تمام مسائل بھول جاتی ہوں۔‘