|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2016

کو ئٹہ : بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکرٹری خارجہ حمل حیدر بلوچ نے اپنے ایک حالیہ تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ بلوچ اتحا دو یکجہتی اتنا پیچیدہ مسئلہ نہیں جس طرح اسے پیش کیا جارہا ہے۔کچھ منتشرالخیال لوگ تو اتحاد کو ایسے آئیڈیالائیز کرتے ہیں گویا وہ ایک دفعہ بن جائے تا ابد قائم ہو ۔وہ نہ اپنے ’’مثالی اتحاد ‘‘ کے لئے کوئی میکانزم واضح کرتے ہیں اور نہ ہی اسکے متبادل کوئی فارمولا بیان کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اتحاد کے لئے ایک قدم بھی آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اتحاد کو خواہش سے یقین میں بدلنے کے لئے پہلا شرط ایک جگہ مل بیٹھ کر بات چیت کا آغاز کرنا ہے۔پھر ایک وضح کردہ مرحلہ ہو جہاں سلسلہ وار نشستوں کے ذریعے باقاعدہ بحث مباحثوں کا آغاز ہو تاکہ اختلافات، تحفظات اور غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے۔ یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں۔ حیربیار خوداگر بیٹھنے کے لئے تیار ہیں تو ہمیں یقین ہے تمام آزادی پسند قوتوں کو اسکے ساتھ بیٹھنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔سفارتی حوالے سے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بی این ایم کی خارجہ پالیسی واضح ہے ۔ ہمارا ماننا ہے کہ جب تک ہم اپنی تحریک کو مقامی سے Transnationalنہیں بناتے اس وقت تک ہم نظرانداز ہوتے رہیں گے اور ہمارے لئے مشکل ہوگا کہ اپنا ہدف حاصل کرسکیں۔ اس وقت ہماری تحریک میں بلوچوں کے سوا دیگر اقوام کے لوگوں جن میں صحافی ، دانشور،سیاستدانوں اور دیگر انسانیت دوست اور جمہوریت پسندوں کی شراکت داری کم ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم تنہائی میں کچھ نہیں کرسکتے ۔ ہمیں دنیا کی بھرپور مدد اور ہمدردیوں کی ضرورت ہے۔ بی این ایف کی پالیسی یہی ہے کہ ہم بلوچ دائسپورا کو منظم کرکے مہذب دنیا کی سیکولر، جمہوریت پسند اور انسان دوست اداروں کو قائل کرکے اپنے کاز کے لئے متحرک کریں ۔ ماضی میں ہم سے کافی کوتاہیاں ہوئی ہیں مگر وقت ہے کہ ہم ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر ایک منظم سفارتی محاذ کی تشکیل کریں۔ پہلے کی نسبت اس وقت ہمارے لئے حالات اور بھی سازگار ہیں۔ ایک تو عالمی حالات تیزی سے ہمارے حق میں تبدیل ہورہے اور دوسری قابل اور ہم فکر، بلوچ سیاسی کارکنوں ، دانشوروں اور ادیبوں کی بڑی تعداد مغربی ممالک میں منتقل ہوگئی ہے جن کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے گا۔اتحاد کی کوششوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اتحاد کی کوششوں میں کوئی شک نہیں۔ یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں، گزشتہ تین برسوں سے ہم نے، جاوید مینگل ، براہمدغ بگٹی،حیربیار اور مہران بلوچ سے کئی ملاقاتیں کی ہیں اور بیش تر رہنماؤں سے اب بھی براہ راست ہمارے رابطے ہیں۔ ہم اتحاد کرنے میں بے شک کامیاب نہیں رہے ہیں مگر کچھ پیش رفتیں ضرور ہوئی ہیں۔ ہمارے درمیان موجود غلط فہمیوں کا کافی حد تک خاتمہ ہوا ہے اور اعتماد کی بحالی میں بھی کافی مدد ملی ہے۔ مگر جس طرح میں نے اوپر بیان کیا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جنکا تعلق مجموعی صورتحال سے ہے جو اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ اب ان چیزوں کو حقائق کہہ کر قوم کے سامنے لانا ایک نئے بلیم گیم کو جنم دے گاجو کہ ایک مناسب سیاسی رویہ نہیں۔ قوم کے سامنے حقائق بیان کرنے اور تحقیق و تجزیے کے نام پر پہلے سے ہمارا کافی نقصان ہوا ہے۔ حمل حیدر نے کہا کہ بی آر پی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ہم گزشتہ تین برسوں سے نیک نیتی سے اتحاد کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔اس سلسلے میں نے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بی آرپی کے ساتھ اب تک بہت سی نشستیں کی ہیں۔ اب بھی ہمارے رابطے جاری ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ اب تک ہم کسی اتحاد یا اشتراک عمل میں ناکام رہے ہیں لیکن کچھ معاملات ایسے ہیں جن کا تعلق مجموعی صورتحال ہے جو اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہم سب کی کوشش ہے کہ اتحادبی این ایم اور بی آرپی تک محدود نہ ہوبلکہ وسیع پیمانے پر ہو تاکہ دیگر تنظیمیں خود کو علیٰحدہ تصور نہ کریں۔ ہم نے بڑی سنجیدگی سے اتحاد کے لئے دوڑ دھوپ کی ہے اور کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس ایک ایک نشست اور بحث مباحثوں کا ٹریک ریکارڈ موجود ہے۔ بہرحال کچھ معاملات ایسے ہیں جن کی وجہ سے تاخیر ہوا ۔ آپ اسے ایک حد تک ناکامی سے تشبیہ دے سکتے ہیں لیکن اسکے باوجود ہم پر امید ہیں کہ اتحاد کے لئے ہماری کاوشیں ضرور کامیاب ہونگیں۔ عالمی سطح پر بلوچ تحریک حوالیعدم دلچسپی پر ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمیں عالمی سطح پرخاطر خواہ توجہ نہیں مل رہی۔ ہمارا آپس میں دست و گریباں ہونا اور ایک منظم ڈپلومیٹک فرنٹ کی عدم موجودگی ان وجوہات میں سے ایک ہیں لیکن اس طرح بھی نہیں کہ دنیا یکسر ہم سے غافل ہے۔اگر چہ عالمی برادری اپنی حالات کے پیش نظر اپنی پالیسیوں اور سفارتی مجبوریوں کی وجہ سے کوئی اسٹینڈ نہیں لیتی مگر وہ ہماری مخالفت نہیں کرتی ہے اور ایک حد تک ہمارے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔