کوئٹہ : بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پیر کے روز سے مشکے، آواران اور جھاؤ میں تمام مواصلاتی نظام بند کرکے فورسز نے ایک وسیع پیمانے کا فوجی آپریشن شروع کیا ہے۔ بیلہ اور خضدار سے کئی فورسز کے قافلے ضلع آواران کے مختلف علاقوں میں پہنچ گئے۔ اکثر راستے اور ٹیلی مواصلات کا نظام بند کرنے کی وجہ سے تفصیلات تک رسائی میں مشکل ہو رہی ہے۔ یہ آپریشن مشکے میں آچڑیں، منجو، مرماسی، کلیڑ، کپور۔ جھاؤ میں دراج کور، چرچری کراس کے علاوہ آواران میں کئی علاقے گھیراؤ اور آپریشن کی زد میں ہیں۔مشکے پتندر، زنگ اور کوہ اسپیت سے بچے اور خواتین کو اغوا کرنے کی اطلاع ہیں۔ جبکہ آواران، مشکے اور جھاؤ کے ان علاقوں میں کئی گھروں کو جلانے اور بلوچ فرزندوں کو اغوا کرکے لاپتہ کرنے کی خبریں ہیں۔ اس سے پہلے بھی فورسز جب بھی مواصلاتی نظام جام کی ہے تو نتیجے میں بربریت کرکے، اسے چھپانے اور میڈیا میں پہنچنے تک روکنے کی کوشش کی ہے۔گزشتہ سال اٹھارہ جولائی کو عیدالفطر کے دن آواران کے دو درجن دیہاتوں کو جیٹ جہاز اور ہیلی کاپٹروں کی بمباری سے صفحہ ہستی سے مٹانے کے بعد اس دن سے آپریشن میں شدت لائی گئی ہے، جو تاحال جاری ہے۔ پہلے ہی ان علاقوں سے ہزاروں افراد کو بے گھر کرکے نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔آج دشت کے مختلف علاقوں میں فورسز کی غیر معمولی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔ دوسرے علاقوں کی طرح دشت میں بھی فوجی بربریت کی تیاری کی جارہی ہے۔ترجمان نے کہا کہ گزشتہ دنوں پنجگور میں سرکاری کارندوں نے ایک گھر پر حملہ کرکے ایک بچی کو شہید اور دو خواتین کو زخمی کیا۔ یہ بربریت بلوچستان کے طول و عرض میں جاری ہے۔ قلات جوہان میں آپریشن میں پندرہ بلوچ فرزندوں کو مقابلے میں شہید کرنے کادعویٰ اسی پرانے ڈرامہ کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ عام آبادی کو نشانہ بنا کر نقل مکانی پر مجبور کر رہاہے ۔یا لاپتہ افراد کی لاشیں پھینک کر انکاؤنٹر کا نام دیا جاتا ہے۔گوادر کاشغر روٹ پر بسنے والے بلوچوں پر بمباری کے بعد یہ سلسلہ جوہان میں شروع کیا گیا ہے۔ کیونکہ جوہان و قریبی علاقوں میں کوئلہ کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں۔بمباری سے شہید ہونے والوں کو بندوق بردار اور مزاحمت کار پیش کرکے بلوچ نسل کشی کا جواز پیدا کر رہاہے۔ منگل کے روز تمپ کلبر سے عام شہری حلیم ولد شہباز، انور ولد جمعہ اور اسلم ولد شاہ میرساکناں پل آباد کو اغوا کر لیا