|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2016

کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بی این ایم کے سیکریٹری خارجہ حمل حیدر بلوچ نے گزشتہ دن فرانس اسٹراسبرگ میں یورپین پارلیمنٹ میں مختلف یورپین پارلیمنٹ کے ممبران سے ملاقات کی۔ان میں یورپین پارلیمنٹ کے رکن فولویو مارتسیلو بھی شامل تھے جو ’ ڈیلیگیشن فار ریلیشنز وِد اسرائیل ‘ (اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا وفد)کے صدر بھی ہیں۔ حمل حیدر بلوچ نے ممبران پارلیمنٹ کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تفصیلا آگاہی دی اور کہا کہ ریاست کی جانب مسلسل نہتے شہریوں کو نشانہ بنا کر تمام انسانی حقوق و عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی بلوچستان میں مذہبی بنیاد پرستی کو ریاستی سرپرستی میں ہوا دی جارہی ہے۔حمل حیدر نے کہا کہ چین اور پاکستان گوادر پورٹ کے حوالے سے ایک نئی صف بندی کرکے بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں مزید راہ ہموار کر رہے ہیں۔ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری اسی منصوبہ کا حصہ ہے، جو بلوچ قوم کیلئے ناقابل قبول ہے۔ تمام ممبران پارلیمنٹ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ یورپین پارلیمنٹ میں بلوچستان کے بارے میں ایک قرار داد پاس کرائیں گے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک جامع منصوبہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ حمل حیدر بلوچ نے یورپین پارلیمنٹ کے نائب صدر آنٹانیو تجانی سے ون ٹو ون ملاقات بھی کی۔ آنٹانیو تجانی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں عیسائی اقلیت و دوسرے لسانی اقلیتوں کے بارے میں ایک پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔ ہم بلوچستان و بلوچوں کیلئے بھی ضرور اقدام اُٹھائیں گے، اور بلوچستان کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ آنٹانیو تاجانی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بلوچستان کے متعلق ایک قرارداد یورپین پارلیمنٹ میں پاس کرائیں گے۔واضح رہے کہ ریاست میں چھوٹی قومیتوں کے ساتھ مذہبی اقلیتوں پر اسلامی شدت حملے کرتے رہتے ہیں۔ ان شدت پسندوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔ چرچ، مندر اور امام بارگاہ ان شدت پسندوں کا مسلسل نشانہ بنتے آرہے ہیں۔ کئی عیسائی اور ہندوؤں کو اغوا کرکے زبردستی اسلام قبول کرواگیا ہے۔ اسی طرح بعد میں ان سے جبری شادیاں بھی کی گئی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب بلوچ قوم تمام مذاہب کا یکساں احترام کرکے مذہبی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کی اُبھار کو دیکھ کر خفیہ اداروں نے مذہبی انتہا پسندوں کی بلوچستان میں بھی پرورش و نشو و نما شروع کی ہے۔ جو تیزی سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل رہا ہے۔ ضلع مستونگ، قلات، کوئٹہ لشکر جھنگوی کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں اور ان کے اراکین ان علاقوں میں سرعام بندوق برداروں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ مکران ریجن جو دو دہائیوں قبل ایسی عزائم رکھنے والے اشخاص سے پاک تھا، مگر آج وہاں لشکر خراسان جیسی تنظیموں کو پنپنے دیا جا رہا ہے۔ جو خالصتا بلوچ قومی تحریک کے سامنے رکاوٹ بنانے کیلئے تخلیق کی گئی ہیں، مگر ان کے اثرات خطہ اور پوری دنیا پر پڑیں گے۔ عالمی مطلوب جماعت الدعویٰ کے سربراہ حافظ سعید کا حالیہ بیان ’’ بلوچستان میں پاکستان کا جھنڈا ہماری کوششوں سے دوبارہ لہرایا گیا ہے‘‘ ایک اور ثبوت ہے کہ پاکستان کس طرح دہشت گردوں کی آبیاری میں مصروف ہے۔