لاطینی امریکہ کے ملک ایکواڈور کے ساحلی علاقے میں شدید زلزلہ آیا ہے جس میں اب تک درجنوں افراد کے ہلاک اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
اس زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ایکواڈور سے کئی لوگوں نے بی بی سی سے رابطہ کیا ہے اور ہمیں اپنی روداد بتائی ہے۔
’بجلی کی تاریں ہچکولے کھا رہی تھیں‘
کیوٹور سے کرسٹین ابرّا سانٹلن کا کہنا تھا:
’پچھلے کئی ماہ سے زلزلے کے چھوٹے موٹے جھٹکے آ رہے تھے۔ میں نے سوچا آج بھی کوئی ایسا ہی جھٹکا ہے اور یہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ اسی لیے میرا رد عمل سست ہی تھا۔
لیکن جب میں نے سنا کہ لوگ چیخ رہے ہیں، بچوں نے رونا شروع کر دیا ہے اور کتّے بھی زور زور سے بھونک رہے ہیں، تو میں نے محسوس کیا کہ آج کا جھٹکا معمولی نہیں ہے۔
میرے کمرے میں لگا ہوا آئینہ بھی ہلنا شروع ہو گیا اور جلد ہی میں نے شیشے کی بوتل کے گرنے کی آواز سنی۔
میں نے جلدی سے اپنے کتے کو پکڑا اور میز کے نیچے چھپ گیا۔
آج کے زلزلے کی سب سے بری بات یہ تھی کہ یہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ مجھے لگا کہ اگر زلزلہ نہ تھما تو میں لوگوں کو اس میز کے نیچے دفن ملوں گا۔
چنانچہ میں نے اپنے کتے کو اٹھایا اور بھاگ کر باہر گلی میں نکل آیا۔ میں نے دیکھا کہ بجلی کی تاریں ہچکولے کھا رہی ہیں۔ لگتا تھا کہ شہر کے کچھ دوسرے حصوں میں تاریں گر چکی تھیں۔
اب میں تو اپنے گھر میں واپس آ گیا ہوں، لیکن میں نے ٹی وی پر خبروں میں دیکھا ہے کہ کئی لوگ ملبے کے نیچے دب کر مر چکے ہیں۔ کاش مجھے یہ سب کچھ نہ دیکھنا پڑتا۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ زلزلہ سنہ 1979 کے بڑے زلزلے سے بھی زیادہ تباہ کن تھا۔
’خدایا، اسے روک لے‘
بویاسا سے کارلا پرّالتا کہتی ہیں:
میں نے ایسا اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ ایسے زلزلے ایکواڈور میں روز روز نہیں آتے۔
میں بڑی مضبوط خاتون ہوں، لیکن آج میں بہت خوفزدہ ہوگئی۔
یکدم ہر طرف تاریکی چھا گئی۔ بجلی بند ہو گئی۔ بالکل اسی طرح جیسے فملوں میں دکھاتے ہیں۔
میں سوچ رہی تھی ’یا خدایا، اسے روک دے‘ کیونکہ مجھے لگا آج میں مر جاؤں گی۔
’میں بہت خوفزدہ، بہت افسردہ ہوں‘
کیوٹو سے وبیکو جونانسن کہتے ہیں:
ہم گاڑی میں جا رہے تھے کہ شام سات بجے کے قریب ہمیں لگا زلزلہ آیا ہے جو ختم ہی نہیں ہو رہا۔
شروع میں مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہو رہا ہے۔
پھر میں نے دیکھا کہ دوسری گاڑیاں بھی ہچکولے کھا رہی ہیں اور لوگ اپنی گاڑیوں اور گھروں سے نکل کر باہر بھاگ رہے ہیں۔
اس وقت جس علاقے سے ہم گزر رہے تھے، وہاں فوراّ بجلی بند ہوگئی۔ ہم خوش تھے کہ ہم گاڑی میں ہیں اور قدرے محفوظ ہیں۔
ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے ایک اور جھٹکا آیا تھا، اس وقت ہم نویں منزل پر تھے۔ یہ جھٹکا بھی بہت طویل تھا۔ کہتے ہیں کہ ساحل کے قریب اس کی شدت 6.2 تھی۔
اس وقت صبح کے دو بجکر 20 منٹ ہو چکے ہیں۔ ہم لوگ سونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میں بہت خوفزدہ، بہت اداس ہوں۔
’یہاں بہت نقصان ہوا‘
گویاکل کے قصبے سے سائمن گورڈن نے ہمیں بتایا:
’میں آپ کو کیا بتاؤں یہ کتنا خوفناک تجربہ تھا۔ یہاں زلزلہ بہت شدید تھا۔
ہمارے ارد گرد کے شہروں میں بہت تباہی ہوئی ہے۔
یہ میرا زلزلے کا پہلا تجربہ تھا۔
مجھے ذاتی طور پر اطمینان ہے کیونکہ میرے بیوی بچے ٹھیک ہیں۔
مرنے والوں کے لیے دعا کرتا ہوں۔
یہ تو بہت بڑی تباہی ہے۔‘