|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2016

کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں ’مارو اور پھینکو‘ پالیسی کے بعد جعلی مقابلوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ لاپتہ افراد کو جعلی انکاؤنٹرز میں مارا جا رہا ہے۔ کل آواران ہسپتال میں دو لاشیں لائی گئیں اور انہیں مشکے کے علاقے منگلی میں مقابلے میں مارے جانے کا ڈرامہ رچایا گیا۔جن کی شناخت عادل بلوچ ولد رحیم بخش اور ماجدبلوچ ولد محمد عمرسے ہوئی ہے۔ جبکہ یہ بات ہماری ریکارڈ اور میڈیا کو جاری کردہ بیانات میں موجود ہے کہ مزکورہ افراد فورسز کے ہاتھوں لاپتہ کئے گئے ہیں۔ 27 فروری 2016 کو آواران کے بھرے بازار سے عادل ولد رحیم بخش سکنہ آواران پیراندر کو فورسز اغوا کرکے لے گیا، جس کے گواہ آواران کے شہری اور ہماری بیانات اور ریکارڈ ہیں۔ماجد ولد محمدعمر سکنہ مشکے کو آواران سے 6 جنوری 2016 کو فورسز نے اغوا کیا تھا۔ان کی اطلاع میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کو دی گئی ہے۔ماجد بلوچ بی ایس او کے ممبر اور ساجد بلوچ کے بھائی ہیں، جو بی این ایم کے ممبرتھے اور 30 جنوری 2016 کو مستونگ میں ڈاکٹر منان بلوچ کے ساتھ فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ میڈیااور انسانی حقوق کے ادارے اس بارے میں آنکھیں بند کرکے سرکاری موقف کی تائید کر رہے ہیں، جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے برعکس ہے۔ اسی کا فائدہ اُٹھا کر فورسز اور خفیہ ادارے بلوچ نسل کشی میں روز بروز شدت لا رہے ہیں۔ ’مارو اور پھینکو‘ پالیسی کے تحت بلوچ قوم کو زیر کرنے میں ناکامی یا کسی حد تک کچھ اداروں کی جانب سے اعتراضات کے بعد جعلی مقابلوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ جس کے تحت کئی لاپتہ بلوچوں کو قتل کیا گیا ہے۔دوسری طرف فوجی آپریشن کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کئی دنوں سے کوہلو سمیت مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن میں کئی بلوچ فرزندوں کو اغوا اور نشانہ بنانے کی اطلاعات ہیں۔میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے تمام دنیا کو اندھیرے میں رکھ کر ادارے بلوچ نسل کشی میں مصروف ہیں۔