کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزادکے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے مرکزی و ائس چیئرمین کمال بلوچ کے بھانجے اوربی ایس او آزاد کے مغوی کارکن ماجد بلوچ ولد محمد عمر اور ایک نوجوان عادل بلوچ ولد رحیم بخش کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی کاروائی کو بلوچ نسل کشی کی کاروائیوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست لاپتہ بلوچ فرزندان کی لاشیں تسلسل کے ساتھ پھینک رہی ہے۔ انہوں نے کہا فورسز عالمی سطح پر تنقید سے بچنے اور لاپتہ افراد کے سنگین مسئلے سے بری الذمہ ہونے کے لئے جعلی مقابلوں اور آپریشن کی آڑ میں لاپتہ سیاسی کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہی ہیں۔ فورسز نے بی ایس او آزاد کے کارکن ماجد بلوچ کو 6جنوری 2016کو آواران بازار سے اغواء کیا تھا جبکہ انکے ہمراہ شہید ہونے والے نوجوان کو 27فروری2016 کوآواران بازار سے اغواء کیا تھا، جنہیں 19اپریل کو شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں فورسز نے آواران انتظامیہ کے حوالے کیں۔ فورسز میڈیا کے ذریعے جھوٹے بیانات پھیلا کر حقائق کو نہیں چھپا سکتا، کیوں کہ ان مغوی نوجوانوں کو دن دیہاڑے فورسز نے بھرے بازار سے اغواء کیا تھا۔ ان کے اغواء کی خبریں میڈیا میں بھی شائع ہوئی تھیں۔اس کے باوجود فورسز انہیں شہید کرکے مقابلے میں مارنے کا جھوٹا دعویٰ کررہی ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ فورسز لاپتہ افراد کے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پر تنقید سے بچنے کے لئے آپریشنوں و جعلی مقابلوں کے نام پر کارکنوں کی لاشیں پھینک رہی ہیں۔ رواں مہینے قلات آپریشن کے دورا ن بڑی تعداد میں نہتے لوگوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کی لاشیں بھی پھینکی گئیں تھیں۔ جبکہ اس کے علاوہ مشکے، نوشکی، آواران ، مکران ، ڈیرہ بگٹی،تمپ اوردشت سمیت مختلف علاقوں میں گزشتہ چند مہینوں کی مختصر مدت میںآپریشن میں شدت لاکرسینکڑوں لاپتہ افراد کی لاشیں پھینک کر انہیں جعلی انکاؤنٹر میں مارنے کا جھوٹا دعویٰ کیا گیاہے۔ جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فورسز عالمی قوانین کو خاطر میں لائے بغیر بلوچ نسل کشی کی کاروائیاں کررہی ہے۔ اس طرح کی کاروائیاں جہاں انسانی حقوق و عالمی جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں وہیں بلوچ معاشرے میں بھی خوف و حراس کا ماحول پیدا کرچکے ہیں۔ کیوں کہ فورسز عمر رسیدہ بزرگوں ، نوجوانوں و خواتین و بچوں کو قتل و اغواء کرنے میں مکمل آزاد ہیں۔اس کے علاوہ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے گزشتہ روز دشت مکران میں آپریشن و لوگوں کو اغواء کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ عوام نے جس طرح اس سے پہلے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، اسی طرح بھاری تعداد میں فورسز کی آمد و لوگوں کو زبردستی پولنگ اسٹیشنوں تک لیجانے کی کوششوں کے بعد بھی ان حلقوں میں پولنگ نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ جس سے فورسز نے دشت کے مختلف علاقوں سے کئی نوجوانوں کو اغواء کیا۔