ریاض: امریکی صدر براک اوباما نے سعودی عرب کے دو روزہ دورے کے دوران سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے ملاقات کی، جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
براک اوباما اپنے دورے کے دوران تاریخی اتحادی سعودی عرب کے ساتھ حالیہ تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی طرف سے جوہری معاہدے کے نتیجے میں علاقائی حریف ایران کی جانب امریکا کے حالیہ جھکاؤ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
براک اوباما، جن کا بطور صدر سعودی عرب کا چوتھا اور ممکنہ طور پر آخری دورہ ہے، خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے، جس میں داعش کے خلاف جنگ میں تیزی لانے اور یمن اور شام میں جاری لڑائی کے خاتمے کے حوالے سے غور کیا جائے گا۔
— فوٹو: اے پی
کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض ایئربیس پہنچنے پر شاہ سلمان خلیجی ممالک کے رہنماؤں کے استقبال کے لیے تو موجود تھے، تاہم وہ براک اوباما کے استقبال کے لیے کنگ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ نہیں گئے تھے۔
امریکی صدر کا اس بار استقبال، جنوری 2015 میں شاہ عبد اللہ کی وفات کے بعد سعودی عرب کے دورے کے مقابلے میں قدرے کم تھا، براک اوباما کے آخری بار دورے پر پہنچنے پر شاہ سلمان نے سعودی ولی عہد اور نائب ولی عہد کے ہمراہ پرتپاک استقبال کیا تھا۔
تاہم اس بار ان کے استقبال کے لیے ریاض کے گورنر شہزادہ فیصل بن عبد العزیز اور وزیر خارجہ عادل الجبیر ایئرپورٹ پہنچے تھے۔
سعودی عرب کے سرکاری چینل الاخباریہ نے بھی براک اوباما کے پہنچنے کی کوریج کے بجائے خلیجی رہنماؤں کی براہ راست کوریج کو ترجیح دی۔
سعودی عرب پہنچنے کے بعد امریکی صدر کی شاہ سلمان سے ان کے محل میں دو گھنٹے تک ملاقات جاری رہی۔
سعودی پریس ایجنسی نے دونوں رہنماؤں کے درمیان اس طویل ملاقات کے حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی، تاہم اس کا کہنا تھا کہ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق براک اوباما بعد ازاں ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النہیان سے بھی ملاقات کریں گے، جس میں داعش کے خلاف جنگ میں تعاون بڑھانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے ایران پر معاشی پابندیاں اٹھائے جانے کی حمایت سے خطے میں ایران کے سب سے بڑے حریف سعودی عرب کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔
حال ہی میں سعودی عرب نے اوباما انتظامیہ اور امریکی کانگریس کے ارکان کو خبردار کیا تھا کہ اگر انھوں نے کوئی ایسا قانون منظور کیا جس کے تحت اگر کسی امریکی عدالت نے سعودی عرب کو11 ستمبر 2001 کے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تو سعودی عرب، امریکا میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کر دے گا۔