بلوچی اکیڈمی، بلوچ عوام کا علمی ادبی وثقافتی طور پر ایک مکمل ادارہ ہے ، جو گذشتہ 54 سالوں سے بلوچی زبان وادب ثقافت اور روایات کے فروغ کے لئے کوشاں ہے۔ ادارہ ہذا نے اس دوران تاریخ ، ثقافت، ادب ، سائنس ،بلوچی شعراء کا کلام، ڈکشنری اوربلوچی زبان کے حوالے سے سینکڑوں کتابیں چھاپی ہیں ۔
چیئرمین واحد بندیگ ، جنرل سیکرٹری پناہ بلوچ اورسیکرٹری پریس اینڈ پبلیکیشنزہیبتان عمر کی شب وروز محنت سے بلوچی اکیڈمی نے حالیہ اپنے دور میں کتابوں کی چھپائی اورتقسیم کرنے میں انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔اکیڈمی کی جانب سے چھپی ہوئی پرانی کتابیں جو آج کل ناپید ہو چکی ہیں، انہیں اکیڈمی انتظامیہ نے دوبارہ شائع کیا ہے۔
علاوہ ازیں ایک انقلابی اقدام بلوچی اکیڈمی نے یہ اٹھایا ہے کہ زبان علم وادب ، سائنس او ر تاریخ کے حوالے سے بلوچی اکیڈمی کی جانب سے چھپی ہوئی کتابیں بلوچستان کے دوردرازعلاقوں کے اسکولوں اور کالجوں سمیت ملک بھر کی لائبریوں میں مفت تقسیم کی جارہی ہیں ۔یہ منفرد اقدام بلوچی اکیڈمی نے قریہ قریہ بستی بستی لائبریوں میں اپنی کتابیں دے کر طالب علموں سمیت دیگر کو تاریخ ، زبان وادب اور ثقافت سے واقفیت کاموقع فراہم کیا ہے۔ بلوچی اکیڈمی کی اس’’ مفت کتاب تقسیم ‘‘پالیسی کی علمی وادبی حلقو ں میں بڑی پذیرائی ہورہی ہے۔
جی ہاں! تو بات چل رہی تھی یعنی قصہ نصف صدی کا! گزشتہ 54 سالوں سے بلوچی علم وادب کے حوالے سے اکیڈمی کے زیر اہتمام چھپنے والی کتابوں کو دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام سے مارکیٹ میں نہ ملنے والی کتابیں قاری کو آسانی سے دوبارہ نئے رنگ وڈھنگ اورجدیدانداز میں پرنٹ ہوکر باآسانی سے مل سکے گی۔ اس حوالے سے بلوچی اکیڈمی نے بلوچستان کے ہر دلعزیز شاعر میر گل خان نصیر کی ’’بلوچی عشقیہ شاعری‘‘ کی کتاب جس کا پہلا ایڈیشن 1979 ء میں شائع ہوا تھا ۔ تاہم اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بہتر جلد اوربہترین معیاری اندورنی صفحات کے دوبارہ نئے انداز میں چھپ چکا ہے۔
دوسرا مشرقی بلوچستان کے مشہور ومعروف صوفی بلوچ شاعرحضرت توکلی مست ؒ جو محترمہ ’’سمو‘‘ نامی خاتون کے مجاز میں گرفتار ہو کے عشق حقیقی کی منزل کی جانب گامزن ہوئے ۔ جس کا ذکرتوکلی مست ؒ نے اپنی لازوال شاعری میں بھی کیا ہے کہ :
’’سمو تو اک بہانہ تھی۔‘‘
مشرقی بلوچستان کے سبی ڈویژن کے اس صوفی شاعر شیرانی مری پر سب سے پہلے میر مٹھا خان مری نے بلوچی زبان میں قلم آزمائی کی۔ مست توکلیؒ کی حالات زندگی اور شاعری کو موثر انداز میں بلوچی زبان میںیہ پہلی کتاب بلوچی اکیڈمی کے زیر اہتمام منظر عام پر آئی۔ اس کا پہلا ایڈیشن ماضی میں چھپنے کے سبب مارکیٹ میں ناپید ہو چکا تھا۔ قارئین کی مانگ اور توکلی مستؒ سے عقیدت کے عوض اس کتاب کا دوسراایڈیشن بلوچی اکیڈمی نے دوبارہ چھپوایا ہے۔
صوفی ازم انسانوں کو آپس میں جوڑنے اور محبت کا لازوال کردار اداکرنے میں ہمیشہ ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا ہے ۔ کیا مشر ق؟تو کیا مغرب ؟ صوفی کی دنیا نے ان سب کو اپنے اندر سما دیا ہے۔ مولانا جلا ل الدین رومی ہو یا بھگت کبیر، شاہ لطیف ہوں یا توکلی مست ، رحمان بابا ہوں یا میاں محمد بخش ان سب کرداروں نے انسانیت کو محبت کا درس دیا ہے ۔ انتہا پسندی، نفرت اور انا وبغض سے پرے رہنے کی تلقین کی ہے۔
چونکہ بلوچستان تو ہر حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔ تاہم صوفی ازم میں یہ ذرخیز مٹی بھی نمایاں رہی ہے۔ بلوچستان میں صوفی شعراء کی تعداد بھی کافی ساری ہے۔ ان کا پیغام بلوچی ، سندھی ، سرائیکی اور اردومیں انسان ذات سے پیار ، وطن سے عشق اور مٹی سے محبت بھرا پڑا ہے۔ ان صوفی شعراء کے کلام کو بلوچی اورتراجم کے توسط سے عام کیا جا سکتا ہے اور معاشرے میں حالیہ انسان دوری اور بغض وعنا کی لڑائی کم کی جاسکتی ہے۔ بلوچستان کے ان عظیم صوفی شعراء جن میں صوفی رکھیل شاہ ، صوفی چیزل شاہ :فتح پور، پہلوان فقیر:جیکب آباد، احمدفقیر :بھاگ، جوانسال بگٹی:ڈیرہ بگٹی، توکلی مست:کوہلو، مولوی قادربخش گولہ:صحبت پور، اشرف فقیر: جھنڈی ناڑی، صوفی فیض فقیر لاشاری :اوستہ محمدودیگر جنہوں نے بلوچی، اردو، فارسی ، سندھی اور سرائیکی میں انسان دوست اور لازوال شاعری کی ہے ، مگر ان صوفی شعراء پر زیادہ کام نہ ہونا اور تراجم سے دوری کے سبب، دنیا تو اپنی جگہ بلوچستان کے لوگوں کو بھی ان کا پتہ نہیں ۔
لہذا راقم اپنے اس کالم کے توسط سے بلوچی اکیڈمی کی انتظامیہ سے مطلوب ہے کہ بلوچستانکے دور دراز علاقوں میں پھیلے ان صوفی شعراء کی بکھری شاعری کو اکٹھا کرکے اور متعلقہ علاقوں میں ادیبوں ودانشوروں پر ذمہ داری عائد کرکے ان کا بلوچی ودیگر زبانوں میں پھیلا پیغام اکٹھا کرکے اسے وقتاً فوقتاً بلوچی اکیڈمی اپنے زیر اہتمام بلوچی زبان اور تراجم میں چھپانے کا اہتمام کرے تاکہ سرزمین بلوچستان کا ورثہ خانقاہوں سے دنیا کی لائبریروں تک بھی پھلے پھولے اورمولوی جلال الدین رومی ، شاہ عبدالطیف بھٹائی ،بھگت کبیر اور بابابلھے شاہ کی طرح بلوچستان کے صوفی شعراء کا پیغام بھی دنیا کی لائبریوں تک رسائی حاصل کرسکے۔