کوئٹہ: پاکستان ورکرز فیڈریشن کے پراجیکٹ مینجر شوکت علی انجم اور ڈاکٹرا سحاق نے بلوچستان حکومت سے اپیل کی ہے کہ ای او بی آئی کے پنشنرز کو تحفظ دینے کیلئے فوری طور پرقانون سازی کی جائے یا ای او بی آئی کو واپس وفاق کے حوالے کیا جائے۔ یہ بات انہوں نے جمعراتً کو مقامی ہوٹل میں منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔انہوں نے کہا کہ ای او بی آئی (EOBI)کے ادارے کا قیام ای او بی آئی کے قانون 1976ء کے تحت 1076میں وجود میں آیا حکومت پاکستان نے اس ادارے کا قیام اس لئے کیا تاکہ قانون کے مطابق پنشن کی سکیم کا نظم و نسق چلایا جائے ای او بی آئی نے اپنے کام کا آغاز یکم جولائی 1976ء سے شروع کیا اور ابتک اس میں 101024آجرر رجسٹرڈ ہیں تاہم ان میں سے 29331ادارے بند ہوچکے ہیں اور 3889اداروں نے رجسٹریشن منسوخ کرادی ہے لہذا اس وقت عملی طور پر 67804ادارے اس میں رجسٹرڈ ہیں اس ادارے میں 5772789ایسے مرد و خواتین کارکن رجسٹرڈ ہیں جوکہ نجی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ای و بی آئی تقریباً 5لاکھ کارکنوں کو فوائد پہنچارہا ہے جس میں سے 326853کارکنوں کو پنشن دی جارہی ہے 151189کارکنوں کے لواحقین کو پنشن دی جارہی ہے جس میں بیوہ اور یتیم بچوں اور معذوری کی پنشن بھی شامل ہے اور 8537افراد کو معذوری کی پنشن ادا کی ارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ 2010ء میں آئین میں کی گئی اٹھارویں ترمیم ملک کی سیاسی صورتحال میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کے ذریعے صوبوں کوانکے مطالبے کے مطابق وفاق نے خود مختاری دیدی ہے تہام مہم کے مطابق ای او بی آئی کی صوبائی سطح پر مجوزہ جوکہ 18ویں ترمیم کی غلط تشریح پر مبنی ہے اس نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے مزدوروں کی تمام تنظیموں نے18ویں ترمیم کی حمایت کی تاہم پاکستان ورکرز فیڈریشن جوکہ ملک بھر میں 8لاکھ سے زائد کارکنوں کی نمائندہ جماعتت ہے اسے ای او بی آئی کی صوبائی سطح پر منتقلی پر شدید تحفظات ہہیں خاص طور پراس لئے کہ اس ادارے کے وجود کو قائم رکھنے کو خطرات درپیش ہونگے اور اسکے علاوہ کارکنوں اورانکے خاندانوں پر بھی اسکے مضر اثرات مرتب ہونگے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی سے یہ غلط تاثر جنم پارہا ہے کہ شاید ای او بی آئی کی بھی صوبائی سطح پر منتقلی کردی جائے گی۔