اسلام آباد: پانامہ لیکس کے معامے پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے رابطوں میں تیزی آگئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد نے اپوزیشن جماعتوں پاکستان تحریک انصاف ،ایم کیوایم اور پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جن میں پانامہ لیکس کے معاملے پر مشرکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا گیا ۔ پیر کے روز اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور پی ٹی آئی کے ر ہنماء شاہ محمود قریشی کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس 2 مئی کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو پارلیمنٹ ہاؤس میں خورشید شاہ کے چیمبر میں ہوگا۔ خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی نے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کی۔ خورشید شاہ نے کہاکہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات گزستہ ملاقاتوں کا تسلسل ہے۔ حکومت کی جانب سے بنائے گئے ٹی او آرز تسلیم نہیں ہیں پانامہ لیکس پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنائے گئے ٹی او آرز سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ اگر 1947 ء سے ملک میں کرپشن کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں تو 100 سال لگ جائیں گے۔ اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت حکومت کے ٹی او آرز پر متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانامہ لیکس معاملہ عالمی سطح کا ہے اس لئے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ سب سے پہلے وزیراعظم نواز شریف کی تحقیقات ہونی چاہئیں اس کے بعد دوسرے لوگوں کی تحقیقات ہونی چاہیءں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت اگر سنجیدہ ہے تو اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے ٹی او آرز طے کرے ۔ یقین ہے کہ پانامہ لیکس معاملے پر سندھ کی عوام پیچھے نہیں رہے گی۔ بعد ازاں ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں ایم کیو ایم کے وفد نے اعتزاز احسن کے رہائش گاہ پر پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات کی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس کے انکشافات بہت اہم ہیں حکومت کمیشن کے معاملے پر سولو فلائٹ کررہی ہے حکومت سولو فلائٹ کی بجائے فی الفور قومی مشاورت کا عمل شروع کرے اور تمام سیاسی جماعتوں سے رائے لی جائے پانامہ لیکس کا بحران محض قومی مشاورت سے ہی ختم ہوسکتی ہے حکومت نے اس معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ باقاعدہ مشاورت نہیں کی حکومت نے اس بحران کا حل نہیں نکالا تو اس بحران سے عوام میں بے چینی کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوگا جس سے جمہوریت کو نقصان ہوگا اور نقصان ملک کا ہوگا انہوں نے مطالبہ کیا کہ پانامہ لیکس پر اتفاق رائے سے کمیشن کے ضابطہ کار طے کرلیا جائے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ کرپشن کیخلاف آواز اٹھائی ہے اس معاملے پر بلاامتیاز ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے کرپشن کا خاتمہ اصل میں ایم کیو ایم کی بنیادی پالیسی ہے اس موقع پر سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ الطاف حسین کی تقریر پر پابندی آئین کے آرٹیکل 19کے منافی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت فی الفور پانامہ لیکس کے معاملے پر نئے قانون کے تحت ٹی او آر بنائے جائے کمیشن اور ان کے ٹی او آر پر حکومت کو پہلے ہی دن سے اپوزیشن سے بات کرنا چاہیے تھی جبکہ نواز شریف نے اپنی لوگوں سے مشاورت کرکے اپنی مرضی کے ٹی او آر بنائے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے پانامہ لیکس پر انٹرنیشنل فرانزک آڈٹ کمپنی کی خدمات لینے پر اتفاق کیا بین الاقوامی فرانزک کمیٹی آڈٹ کے ماہر کے بغیر احتساب نہیں ہوسکتا انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم کے وفد کے ساتھ اس ایشو پر زیادہ تر معاملات پر سوچ ایک ہی ہے ۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے متفق ہیں ،ٹی او آرز اپوزیشن کی مشاورت سے طے کئے جائیں اور قانون سازی کی جائے ، تحقیقات وزیراعظم کے خاندان سے شروع ہونی چاہیں اور ٹی او آرز کو پبلک کیاجانا چاہیے ، اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا۔اس بات پر اتفاق پاکستان مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن ، خورشید شاہ کی ملاقات پر ہوا ۔ بعد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی سے مختلف ایشوز پر مشاورت ہوئی ہے پاکستان مسلم لیگ (ق) پیپلز پارٹی کے موقف سے مکمل اتفاق کرتی ہے ٹی او آرز اپوزیشن کی مشاورت سے طے کئے جائیں اور اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جائے انہوں نے کہا کہ تحقیقات وزیراعظم کے خاندان سے شروع ہونی چاہیے اور ٹی او آرز کو پبلک کیاجانا چاہیے اس سے پہلے حمود الرحمن کمیشن سمیت کئی کمیشن بنے لیکن پبلک میں کچھ نہیں بتایا گیا ان کا حشر سب کے سامنے ہے ۔ اس موقع پر اعتزاز احسن نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) سے پانامہ لیکس کی تحقیقاتی طریقہ کار پر اتفاق ہوگیا ہے اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا ہے یہ وزیراعظم کی مہربانی ہے کہ انہوں نے قائداعظم ، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ تحقیقاتی عمل سے مبرا ہیں کہ نہیں قانون سازی کیلئے مشاورت کی جائے اگر اکیسویں ترمیم پر مشاورت کے بعد قانون سازی ایک دن میں ہوسکتی ہے تو پھر پانامہ لیکس پر کیوں نہیں ہوسکتی وزیراعظم اور ان کے خاندان کے اکاؤنٹس ، آف شور کمپنیوں کے بارے میں پتہ چلایا جائے کہ یہ رقم پاکستان سے باہر کیسے گئی اگر رقم پاکستان سے نہیں آئی تو یہ رقم کہاں سے آئی ہے اس حوالے سے حسین نواز نے اعتراف کیا ہے ۔۔ فرانزک آڈٹ رپورٹ چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونی چاہیے پہلی رپورٹ وزیراعظم کے خاندان سے متعلق ہی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہونی چاہیے اس وقت وزیراعظم کا خاندان الزامات کی زد میں ہے پہلے ان کو کلیئر کرلیا جائے گا اگر یہ جتنا جلدی اپنے آپ کو اس حوالے سے کلیئر کرواتے ہیں تو اتنا ہی جلدی یہ معاملات سدھر جائینگے وزیراعظم کے صاحبزادے نے اقرار کیا ہے کہ ان کے نام جائیداد ہے وزیراعظم کے خاندان کو پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنے اوپر لگے الزامات کو صاف کرنا چاہیے اگر اس حوالے سے تاخیر کرتے ہیں اور اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیتے تو پھر اس یں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ور ان کے خاندان کی انڈسٹریز کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے اس حوالے سے بین الاقوامی فرم کی امداد لینی چاہیے اس میں صرف آٹھ سے دس دن لگیں گے وزیراعظم اس حوالے سے جلد از جلد اپنی بے گناہی ثابت کرکے اپنے آپ کو کلیئر کروا سکتے ہیں تحقیقات کے حوالے سے تاخیر حکومت کررہی ہے اس موقع پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس دو مئی کی شام چوہدری اعتزاز احسن کی رہائش گاہ پر ہوگا پاکستان مسلم لیگ (ق) نے اس حوالے سے شرکت کی یقین دہانی کرادی ہے اگر 1947ء سے کام شروع کیا جائے تو پھر سو سال لگ جائینگے اگر ایسا ہوا تو حکومت صاف بچ جائے گی۔