کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پالیوں میں تیزی آنا اور انسانی حقوق کے اداروں کا خاموش ہونا ایک خطرناک انسانی المیے کو جنم دینے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ فورسز بلا تفریق مرد، خواتین و بچوں کونشانہ بنا رہی ہیں۔ عام آبادیوں پر یلغارایک عرصے سے جاری ہے۔ سیاسی کارکنوں کو اغوا و قتل کے ساتھ ان کے رشتہ داروں کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔یہاں حقوق کی بات کرنا یا سیاسی کارکن ہونا ایک جرم بن گیا ہے۔بلوچستان میں فورسز کے ہاتھوں کسی شہری کی زندگی اور عزت نفس محفوظ نہیں۔ترجمان نے کہا کہ کیچ کے علاقے شاپک سے ساتویں جماعت کے طالب علم کمسن بچے کو فورسز نے اُٹھا کر تاحال لاپتہ کئے رکھا ہے، جو انسانیت کے خلاف ایک نہایت ہی سنگین جرم ہے۔ معیض ولد مومن کو شاپک سے فورسز نے اغوا کے بعد لاپتہ کیاہے۔ گھر میں خواتین کی بے حرمتی کی اور موبائل و دیگر سامان چھین کر لے گئے۔بچوں کو اُٹھا کر غائب کرنا یا بمباری میں قتل کرنا فورسز کی جانب سے پہلا واقعہ نہیں۔ دو سال پہلے تربت سے چاکر بلوچ کو اغوا کرکے تشدد کے بعد لاش ویرانے میں پھینک دی گئی تھی۔پچھلے سال تمپ میں گھر پر بمباری سے سیف اور ذکریا نامی دو کمسن بچے شہید کئے گئے۔مشکے میں اکتوبر دو ہزار چار میں کھندڑی کے علاقے میں گھر پر بمباری سے ایک خاتون سمیت گلناز نامی چھ سالہ بچی شہید ہوگئی تھی۔دسمبر دو ہزار بارہ میں مشکے تنک میں بمباری سے بختی نامی دوسالہ بچی خاندان کے کئی افراد کے ساتھ شہید ہوگئی تھیں۔ فورسز کی کارروائیوں کو میڈیا کی آنکھ سے دور رکھ کر غیر انسانی سلوک بلوچ قوم پر جاری ہے۔ آج سے ایک سال پہلے انسانی حقوق کے کارکن سبین محمود کو بدنام زمانہ آئی ایس آئی نے اس لئے قتل کیا کہ انہوں نے بلوچستان میں ہونے والے مظالم پر بات کرنے کی جرات کی اور اپنا فرض نبھایا ۔ترجمان نے کہا کہ پروم ، بلیدہ، بالگترو قلات کے مختلف علاقوں سمیت بولان میں بمباری سے بھاری نقصانات کی اطلاع ہے مگر گھیراؤ اور ٹیلی مواصلات نہ ہونے کی وجہ اصل صورتحال کی تفصیل حاصل کرنے میں دشواری ہے۔کل پروم و بلیدہ کے کئی علاقوں میں فورسزبمباری کی ہے اور کئی لوگوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا ہے۔بالگتر کیل کو سے شریف ولد عمر ، جمال ولد عمر، نادل ولد حیدر، وہاب ولد علی بخش سمیت کئی بلوچ فرزندوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔ قلات میں نرمک، جوہان ، ناگاہو، گزگ،دلبند و گرد و نواع میں آج پورا دن شیلنگ جاری رہی۔ ان علاقوں میں اسی مہینے کے شروع میں بمباری سے خانہ بدوش راہ گیروں سمیت تین درجن کے قریب نہتے بلوچوں کو شہید کیا گیا۔ مگرمیڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کی معنی خیز خاموشی نے فورسز کو ایک دفعہ پھر موقع فراہم کی کہ وہ بلوچ نسل کشی جاری رکھے۔گوکہ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ایشین ہیومین رائٹس کمیشن کی ویب سائٹس پر زبانی مذمت کے آثار نظر آئے، مگر عملی اقدام نہ ہونے کی وجہ سے آج انہی لوگوں پر وہی طاقت دوبارہ آزمائی جارہی ہے۔ بلوچ قوم کا ان اداروں پر سے بھروسہ ختم ہوتا جارہا ہے۔بولان میں بھی اسی طرح کی کارروائیوں کی اطلاع ہے۔