|

وقتِ اشاعت :   April 30 – 2016

حکومت پاکستان کی جانب سے فیس بک استعمال کرنے والے افراد کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے درخواستوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا انکشاف فیس بک کی ششماہی ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ جولائی 2015 سے دسمبر 2015 کے دوران حکومت پاکستان کی جانب سے فیس بک سے ڈیٹا کے حصول کے لیے 471 درخواستیں کی گئیں، جبکہ گزشتہ برس جنوری سے جون تک یہ تعداد 192 تھی، یعنی کہ پاکستان کی جانب سے چھ ماہ کے دوران 245 فیصد اضافہ ہوا۔ فیس بک کے مطابق پاکستانی حکومت نے 706 صارفین یا اکاﺅنٹس کے بارے میں ڈیٹا طلب کیا تھا جبکہ گزشتہ برس جنوری سے جون تک یہ تعداد 275 تھی، اس حوالے سے بھی 256 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 471 درخواستوں میں سے فیس بک نے 66.45 فیصد پر تعاون کرتے ہوئے حکومت کو معلومات فراہم کیں۔ فیس بک نے یہ بھی انکشاف کیا کہ دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے 60 فیصد ڈیٹا درخواستیں زبان بندی کے حکم کے ساتھ موصول ہوئیں یعنی کمپنی کو متعلقہ صارف کو اس طرح کی درخواست کے بارے میں بتانے سے روکنے کی ہدایت کی گئی۔ یہ پہلی بار ہے کہ فیس بک نے اس بات کا انکشاف کیا ہے اور ایسا امریکا میں قوانین کی تبدیلی کی وجہ سے ہوا ہے۔ فیس بک کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ کسی بھی حکومت کو ‘ بیک ڈور ‘ یا صارف کے ڈیٹا تک براہ راست رسائی نہیں دیتا اور ہر درخواست کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کا جواب دینا چاہئے یا نہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال فیس بک نے اپنی رپورٹ کے حوالے سے کہا تھا کہ حکومتی درخواستوں پر جواب اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب وہ کسی فوجداری مقدمے سے متعلق ہو۔ حکومت پاکستان کی جانب سے جولائی 2014 سے دسمبر 2014 کے درمیان 100 درخواستوں کے ذریعے 150 صارفین یا اکاﺅنٹس کا ڈیٹا طلب کیا گیا تھا۔ اب اس نئی رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کی قانونی درخواستوں کی بناء پر 6 پیجز سے ایسے مواد کو بلاک کیا گیا جو پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی یا توہین مذہب پر مبنی تھا۔ انسٹاگرام اور واٹس ایپ بھی فیس بک کی ہی ملکیت ہیں مگر ان پر موجود صارفین سے متعلق درخواستوں کے اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے انڈسٹری کے شراکت داروں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر دنیا بھر کی حکومتوں پر دباﺅ ڈال رہا ہے کہ وہ نگرانی کے عمل میں اصلاحات کریں تاکہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے جب کہ سیکیورٹی اداروں کو بھی شہریوں کے حقوق اور آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔