|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2016

کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ کل 30 اپریل کو سوئیزرلینڈ کے شہر زیورخ میں بی این ایم نے سولینیٹس (Solinets ) اور فرسٹ مئی کمیٹی (First May committee)کے تعاون سے ’’ کرائسس سنٹر’پاکستان ‘ اور بلوچستان میں آزادی کی تحریک‘‘ (Crisis Centre ‘Pakistan’ And The Independence Movement In Balochistan) کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔بی این ایم کی نمائندگی بی این ایم یورپ کے رہنما اور یورپ ریجنل کمیٹی کے رکن حاتم بلوچ نے کی۔سولینیٹس کی جانب سے اولی ولڈ برگر Ueli Wildbergerنے شرکت کی۔ پروگرام تین حصوں بلوچ قومی سوال اور آزادی کی جدو جہد، بلوچ ثقافت اور سوال وجواب پر مشتمل تھی۔اپنی تقریر اور سوال و جواب کے سیشن میں میں حاتم بلوچ نے اس بارے میں ناظرین کو تفصیلاََ آگاہی دی ۔ حاتم بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم نے مختلف ادوار میں برطانوی راج اور دوسری قبضہ گیروں کے ساتھ جنگ کرکے بلوچستان کی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کی جد وجہد کی ہے۔1839 میں خان محراب خان کی شہادت ہو یا آج بلوچ قوم ہمیشہ سے مزاحمت کرتا آ رہا ہے۔ انگریزوں نے افغانستان اور سنٹرل ایشیا جانے کیلئے بلوچستان کے راستے اور سمندری حدود استعمال کرنے کیلئے بلوچ حکمرانوں سے کئی معاہدے کئے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم اور برطانیہ کا خطے سے چلے جانے کے بعد 11 اگست 1947 کو بلوچستان کی مکمل آزادی کا اعلان کیا گیا۔مگر برطانیہ نے خطے میں اپنی اثر و رسوخ کو بر قرار رکھنے کیلئے ہندوستان کو ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کیا۔بعد میں اسی پاکستان نے بلوچستان پر فوج کشی کی اور 27 مارچ 1948 کو بلوچوں کی صدیوں قدیم سرزمین و ریاست کو نوزائیدہ پاکستان کا حصہ بنایا۔اس قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ قوم 68 سالوں سے مختلف محاذوں پرریاست سے ایک جنگ لڑ رہی ہے۔اس تحریک کو کچلنے کیلئے ریاست نے ہزاروں بلوچوں کا قتل کیا ہے۔ ہزاروں بلوچوں کو جبری لاپتہ کرکے خفیہ اداروں کی خفیہ ٹارچر سیلوں میں کئی سالوں سے انسانیت سوز اذیت سے گزارا جا رہا ہے۔ان کی بازیابی کیلئے بلوچ انسانی حقوق کے سرخیل ماما قدیر بلوچ، بی ایس او آزاد کے لاپتہ وائس چیئرمین ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید، بی این ایم کے لاپتہ رہنماؤں ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، رمضان بلوچ کے کمسن بیٹے علی حیدر اور شہید جلیل ریکی کے چھ سالہ بچے بیورغ سمیت کئی لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے کوئٹہ سے اسلام آباد 3000 کلومیٹر طویل پیدل لانگ مارچ کی ۔ مگر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے ادارے اور دنیا نے کسی کی نہ سنی اور بلوچستان میں آج بھی لوگ غائب ہورہے اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔اس کے علاوہ بلوچ قومی تحریک کوکاؤنٹر کرنے کیلئے بلوچستان میں ریاست اداروں کی سرپرستی میں مذہبی شدت پسندی و فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے۔اور بلوچستان کی روٹ کو منشیات کیلئے استعمال کرکے نہ صرف بلوچ قوم کو نشے کا عادی بنایا جا رہا ہے بلکہ اسی راستے ریاست کی سرپرستی میں منشیات کو پوری دنیا تک پہنچایا اور پھیلایا جارہا ہے۔ جوریا ست کا دہشت گرد برآمد کرنے کے ساتھ منشیات برآمد کرنے کے کارو بار کا حصہ ہے۔ریاست نے بلوچ کو ہر میدان میں پسماندگی میں دھکیلا ہے۔بلوچ آج بھی قرون وسطیٰ میں رہ رہے ہیں۔تعلیمی پسماندگی، صحت کی سہولیات کا نہ ہونا، غرض ایک کالونی کی تمام خصوصیات بلوچستان میں موجود ہیں۔بلوچوں کاذریعہ معاش زراعت ہے، جو آج بھی بیلوں سے ہل چلا تے ہیں۔ حاتم بلوچ نے کہا کہ اب پاکستان چائنا اقتصادی رہداری CPEC و ترقی کے نام پر لاکھوں غیر بلوچوں کو بلوچستان میں آباد کرنے کی پالیسی کے تحت بلوچ قوم کو اقلت میں تبدیل کرکے ہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے مٹانے کی تیاری ہے۔ اس روٹ پر آنے والی سینکڑوں دیہاتوں کو فوجی آپریشن و بمباری سے ملیا میٹ کیا گیا ہے۔ جس سے تین لاکھ بلوچ بے گھر ہو کر در بدر کی زندگی گزار رہے ہیں۔ایسے میں بلوچستان کی آزادی کی جدو جہد برحق اور دنیا کی مدد کا مستحق ہے۔ مہذب دنیا کو ریاست کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خطے و دنیا میں امن کیلئے آزاد بلوچستان کی حمایت کرنا چاہئے۔ آخر میں مرکزی ترجمان نے کہا کہ آج بلیدہ و زعمران کے مختلف علاقوں ناگ، الندور، کوچگ، کلبر سرچب ،سلوکور میں فوجی آپریشن جاری ہے۔ کئی علاقوں میں نئی فوجی چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔بلیدہ، زعمران کے پہاڑی علاقوں میں بمباری کی اطلاع ہے۔اس کے علاوہ قلات کے علاقے جوہان، نرمک و ناگاہو دوسرے ہفتے میں بھی فوجی محاصرے میں ہیں اور کئی بلوچ فرزندوں کے اغوا کی اطلاع ہے۔ترجمان نے کہا کہ فورسز نے خاران شہر میں ایک گھر پر چھاپہ مارکر ایک بارہ سالہ معصوم بچے وحید بلوچ کو اغوا کیا۔ ان کا ایک اپاہج بھائی اسلم شوہاز کچھ مہینے پہلے ہی فورسزکے ہاتھوں اغوا ہو کر غائب ہیں۔