کراچی: کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ سے متعلق تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے مبینہ طور پر ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے پر عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں جاسوسی کا مقدمہ چلانے کی سفارش کردی۔
سندھ پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ 29 اپریل کو محکمہ داخلہ سندھ کو ارسال کردی گئی تھی۔
جے آئی ٹی رپورٹ کی، ڈان کو ملنے والی کاپی کے مطابق عزیر بلوچ ملک میں آرمی کی تنصیبات اور عہدیداران سے متعلق خفیہ معلومات ایران کے انٹیلی جنس افسران کو فراہم کرتا تھا، جو کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ (سرکاری خفیہ ایکٹ) 1923 کی خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ میں عزیر بلوچ کے اقبالی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لیاری کا یہ گینگسٹر 2013 میں کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے آغاز کے بعد ایران فرار ہوگیا تھا، جہاں وہ چابہار میں اپنے دوست مالک بلوچ کے ہمراہ رہتا تھا اور وہی اس کی ملاقات دوہری شہریت رکھنے والے حاجی ناصر سے ہوئی۔
ناصر نے عزیر بلوچ کو مستقل طور پر تہران منتقل ہونے اور بغیر پیسے خرچ کیے ایرانی شہریت دلانے کی پیشکش کی، کیونکہ اس کے ایرانی انٹیلی جنس افسران سے اچھے تعلقات تھے اور وہ عزیر کی ان سے ملاقات کرا سکتا تھا۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے ناصر کی پیشکش پر رضا مندی ظاہر کی جس کے بعد اس کی ایرانی انٹیلی جنس کے ایک عہدیدار سے ملاقات کرائی گئی، جس نے عزیر کو شہریت دلانے کے بدلے کراچی کی سیکیورٹی صورتحال اور مسلح افواج کے عہدیداران سے متعلق مخصوص معلومات فراہم کرنے کو کہا۔
عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ اس کے 14 ساتھیوں میں سے 6 اب بھی چابہار میں ہیں۔
رپورٹ میں تحقیقاتی ٹیم کے اراکین کی جانب سے حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ عزیر بلوچ کے خلاف، جاسوسی میں ملوث ہونے پر پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں عزیر بلوچ اور اس کے ساتھیوں کو سیاسی اور نسلی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا بھی ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ کئی پولیس و رینجرز اہلکاروں اور حریف ارشد پپو کے قتل میں بھی ملوث پایا گیا، جبکہ وہ بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، چائنہ کٹنگ اور منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ملوث رہا۔
عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ اس نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ارشد پپو، اس کے بھائی یاسر عرفات اور شیرا پٹھان کو اغوا کے بعد قتل کیا، جبکہ اس کارروائی میں انسپیکٹر یوسف بلوچ، ایس ایچ او جاوید بلوچ اور انسپیکٹر چاند خان نیازی نے اس کی مدد کی۔
لیاری گینگسٹر نے ٹیم کو بتایا کہ مارچ 2013 میں اس کے ساتھی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے وابستہ شیر محمد شیخ عرف شیرو نے، اسے بتایا کہ اس نے گینگ کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے والے دو رینجرز اہلکاروں کو اغوا کیا، بعد ازاں عزیر بلوچ نے ایم کیو ایم پر الزام لگائے جانے کی نیت سے، شیرو کو دونوں اہلکاروں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔
عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی کے سامنے مزید انکشاف کیا کہ فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی کے چیئرمین سعید خان، اسے ماہانہ 20 لاکھ روپے بھتہ دیتے تھے۔