|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2016

کوئٹہ: وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سیاسی مخالفین کو صبر کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن کے نام پر مصنوعی بحران پیدا کرنے والے 2018ء اور اس کے بعد بھی صرف صبر ہی کریں۔ کرپشن کے الزامات پر کمیشن بنادیا ہے ،اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ملک میں ترقی کا سفر دوبارہ شروع ہوچکا ہے۔ کراچی میں روشنیاں بحال ہوری ہیں۔ آپریشن کو کسی سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے یہ بات دورہ کوئٹہ کے موقع پر گورنر ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری، وزیرمملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ، وفاقی و صوبائی وزراء، ارکان پارلیمان بھی موجود تھے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ہم عوامی خدمت کے سفر کا ایک اور اہم سنگ میل عبور کررہے ہیں ، عوام کی فلاح و بہبود کے اس کارنامے کا سفر 31 دسمبر 2015ء کو اسلام آباد سے آغاز کیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس ملک کے عوام کیلئے اس سے بھی کہیں زیادہ کرنا چاہتے ہیں۔صحت کے ساتھ عوام کو تعلیم اور روزگار کی بھی ضرورت ہے۔ روزگار کیلئے لازم ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمیاں ہوں۔ سرمایہ کاری ہوں۔ صنعتیں قائم ہوں۔ زراعت ترقی کرے۔ ایک مستحکم انفراسٹکچر ہو۔ بجلی اور گیس کی فراوانی ہو۔ یہ سب کام اسی ملک میں ہوسکتے ہیں جہاں امن اور سیاسی استحکام ہو۔ جس ملک میں روز ہنگامے ، دھرنے اور احتجاج ہو ، ہروقت افرا تفری کا سماں ہو۔ وہاں سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔ جب سرمایہ کار اور سرمایہ نہیں آتا وہاں روزگار کا دروازہ بھی نہیں کھلتا۔ پھر لوگوں کے پاس ہنر ہوتا لیکن اس کا طلبگار نہیں ہوتا۔ نوجوان ڈگریاں لیے پھرتے ہیں مگر کوئی ان کا قدر دان نہیں ہوتا۔ ہم نے اس سیاسی کلچر کو تبدیل کرنا ہے۔ ہم نے نوجوانوں کے اس بے قدری کو روکنا ہے۔ ہم نے وہ سیاسی اور معاشی کلچر لانا ہے جس میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مانگ اور قدر ہوں۔ وہ اپنے والدین کی آس اور امید پر پورا اتریں اور وہ خاندان کا اثاثہ ثابت ہوں اور ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بھی خدمت کرسکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ ہم نے بجلی اور گیس کی کمی کا دور اور ملک کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنا ہے تاکہ کوئی مافیا عوام کے مفاد سے نہ کھیلے۔ ہم نے پہلے دن سے ہی اسی کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ملک میں توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2013ء کی صورتحال کو ابھی تین سال پورے نہیں ہوئے جب ملک میں بجلی کا بحران عروج پر تھا ، کہیں بارہ، کہیں اٹھارہ اور بعض علاقوں میں بیس بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی تھی اور اس کے خلاف عوام سراپا احتجاج تھے آج اللہ کے فضل و کرم سے تین سالوں میں بہت فرق پڑا ہے۔ ہم لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگلے سال لوڈ شیڈنگ میں مزید کمی آجائے گی اور انشاء اللہ دو ہزارہ اٹھارہ میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگا۔ گیس کی قلت بھی انشاء اللہ ختم ہوجائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج اللہ کا شکر ہے کہ ملک میں توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہورہا ہے ہم یہ مسئلہ آنے والی حکومتوں کیلئے چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ دو ہزار اٹھارہ انشاء اللہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا سال ہوگا۔ میاں محمد نواز شریف نے وزیراعظم ہاؤس کے دفاع میں نواب ثناء اللہ زہری کی پرجوش تقریر کی تعریف کی اور کہا کہ واب ثناء اللہ زہری نے بڑے جوش کے ساتھ تقریر کی جو مجھے بہت پسند آئی۔ میرا ان سے بڑا پرانا تعلق ہے۔عبدالمالک بلوچ سے بھی مختصر عرصے میں مضبوط تعلق قائم ہوا ہے ان کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ ماشاء اللہ انہوں نے صوبے کی ترقی و خوشحالی اور اس کی بہتری کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ یقیناًبلوچستان کے عوام اور ہم سب کی مبارکباد کے سمتحق ہے۔ صوبے میں انتقال اقتدار کے ساتھ ہی ثناء اللہ زہری بھی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور صوبے کی ترقی کیلئے دن رات کام کررہے ہیں۔ میری دعا ان کے ساتھ ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور طاقت دے کہ وہ اس فرض کو اور بہتر انداز سے ادا کریں۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ نواب ثناء اللہ زہری نے مخالفین کو دو ہزارہ اٹھارہ تک صبر کرنے کا کہا۔ میں ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ نہ صرف دو ہزارہ اٹھارہ تک صبر کرے بلکہ اس کے بعد بھی صبر کرے۔ اور ابھی سے اس کیلئے اپنی کمر باندھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو شفاف سیاسی کلچردینا ہے۔ ہم نے پہلے اپنے عمل سے یہ مثال قائم کی۔ اللہ کے شکر ہے کہ اس حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔۔ ہماری حکومت کے نہ صرف موجودہ تین سالوں بلکہ اسے پہلے 1991 سے 1993 اور 1997 سے 1999ء تک پہلے دو حکومتی ادوار میں بھی ہماری طرف کوئی انگلی اٹھائی جاسکی۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے کوئی کک بیک اور کمیشن لی ہے یا پھر کوئی کرپشن کی ہے۔ اللہ کے فضل سیایک پائی کی کرپشن کا بھی الزام نہیں۔ موجودہ تین سالوں میں بھی وزیراعظم اور کسی مرکزی وزیر کے خلاف کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ وزیراعظم نے کہ اکہ الزام کا معاملہ دوسرا ہے۔ کسی کی زبان بند نہیں کی جاتی۔ کچھ لوگوں نے کرپشن کے نام پر بحران پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے ان کے مطالبے کے مطابق کمیشن بنادیا۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ چند سال پہلے پاکستان کرپشن میں سرفہرست ہوا کرتا تھا آج شفافیت کے حوالے سے پہچان بنارہا ہے۔ آج پاکستان میں اقتصادی راہداری کے منصوبے پر عمل ہورہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری یہ ایسا منصوبہ ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے عوام کی زندگی بدل دے گا۔ یہ نیا اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی انقلاب بھی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان ، خیبر پشتونخوا، فاٹا اور گلگت کے عوام کو پہنچائے گا۔ پاک چین اقتصادی رہداری بلوچستان میں معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ بلوچستان نہ صرف ملک کے دیگر حصوں کیقریب آئیگا بلکہ یہاں ترقی اور فلاح کے دروازے کھلیں گے۔ گوادر انٹرنیشنل سٹی بنے گا۔ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کا آغاز ہورہا ہے۔ قطر سے سستی ترین ایل این جی کا معاہدہ بھی طے پاچکا ہے۔ گیس کی فراہمی شروع ہوچکی ہے۔ بلوچستان میں اربوں روپے کی خطیر رقم سے سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ کئی سڑکیں بن چکی ہیں گوادر صرف کوئٹہ اور بلوچستان سے ہی نہیں مل رہا بلکہ پورے ملک کے ساتھ جڑ رہا ہے۔ اس طرح پورا پاکستان آپس میں ملے گا۔ سڑکوں کے اتنے بڑے منصوبے آج تک ملکی تاریخ میں کسی نے نہیں بنائے۔ سڑکوں کے ان منصوبوں کی تکمیل سے بلوچستان کا نقشہ بدل جائے گا۔ موٹرویز کا نیٹ ورک کا کام مکمل کیا جارہاہے کراچی کو موٹروے کے ذریعے پشاور سے ملانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ یہ وہ کام ہے جو بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔ اگر ہمارے پاس مستحکم انفراسٹرکچر اور روڈ نیٹ ورک ہوتا تو آج ہم اس سے کہیں آگے کا سوچتے۔ اگر اس ملک میں روڈ نیٹ ورک پہلے بنایا جاچکا ہوتا تو عوام اور صوبے ایک دوسرے سے اتنا دور نہیں ہوتے۔۔ افسوس کہ ہم نے نوے کی دہائی میں جو ترقی کا خواب دیکھا تھا اسے کسی نے آگے نہیں بڑھایا۔ ہم اس کی تلافی کررہے ہیں۔ اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی گاڑی اب ترقی کی شاہراہ پر الحمداللہ چل چکی ہے۔ کراچی کی روشنی بحال ہورہی ہے۔ بدامنی کا خاتمہ ہورہا ہے۔ ہم نے کراچی آپریشن کو کسی قسم کے سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہونے دیا اور اس کے نتائج عوام کے آنکھوں کے سامنے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کامیابی سے لڑی جارہی ہے۔ فوج رینجرز، پولیس ، حکومت، عوام پوری قوم متحد ہوکر یہ جنگ لڑرہی ہے۔ صنعتی اور زرعی ترقی کے منصوبوں، بجلی اور شاہراہوں کے نیٹ ورک ساتھ ساتھ حکومت سماجی شعبوں پر بھی خصوصی توجہ دی رہی ہے تاکہ پاکستان کو ایسی فلاحی ریاست بنایا جائے جہاں روشنی کبھی ماند نہ ہو۔ جہاں ترقی اور خوشحالی کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیرجاری رہے۔ جہاں کسان پرعزم اور نوجوان بااعتماد ہو۔ جہاں امن و آشتی محبت و اخوت کے پھول کِھلے۔ جہاں امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ آج الحمداللہ اسی پاکستان کی تعمیر کی جانب ایک اور سنگ میل عبور کیا جارہاہے۔ صحت کے اس منصوبے کے تحت ہم انشاء اللہ بلوچستان کے ہر اْس آدمی اور خاندان تک پہنچیں گے جسے محروم رکھا گیا ہے۔ دریں اثناء وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ بلوچستان کی ترقی کیلئے وفاقی حکومت ہر ممکن مدد کرے گی۔ کوئٹہ میں امن وامان اور صوبے کو درپیش چیلنجز سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو ماضی میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے نظر انداز کیا۔ اب وہ نہیں ہوگا جو ماضی میں ہوا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل بلوچستان کے مسائل کا حل ہے۔ اگلے مالی سال کے بجٹ میں بلوچستان کے لئے مزید فنڈز رکھیں گے۔ بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لئے ہرممکن تعاون کریں گے۔گوادر اور اقتصادی راہداری کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہو گا۔ اس سے قبل چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ نے وزیراعظم کو بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال اور درپیش چیلنجز پر بریفنگ دی اور بتایا کہ سیاسی عزم اور سیکورٹی اداروں کے باہمی مؤثر روابط اور کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا۔کئی بڑے دہشتگردوں کاہلاک کردیا گیا۔ ان مؤثر کارروائیوں کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی۔ 2013ء میں بم دھماکوں کے واقعات 483ہوئے جبکہ رواں سال صرف 27ایسے واقعات ہوئے۔ 2013ء میں قومی شاہراہوں پر ڈکیتی کی 90جبکہ رواں سال 6واقعات ہوئے۔ 2013میں اغواء کی 49جبکہ رواں سال 8وارداتیں ہوئیں۔ 2013میں 372راکٹ حملے جبکہ 2016میں اب تک صرف 5راکٹ حملے ہوئے۔ وزیراعظم کو صحت اور تعلیم سے متعلق منصوبوں پر پیشرفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ جامعہ بلوچستان کے دو نئے سب کیمپس قائم کئے گئے۔ خاران اور سبی میں دو نئے ریذیڈنشل کالج اور 141پرائمری سکول قائم کئے گئے۔ صوبے میں تین نئے میڈیکل کالجز بھی شروع کئے گئے۔ بولان میڈیکل کالج اور زرعی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ چیف سیکریٹری نے وزیراعظم کو بتایا 105ڈیم اور 659واٹر سپلائی سکیمیں شروع کی گئیں۔ صوبے میں 3451کلو میٹر طویل شاہراہیں تعمیر کی گئیں۔ گوادر میں 50بستروں پر پر مشتمل دو نئے اسپتال تعمیر کئے گئے۔ جبکہ صوبے میں ملازمتوں کے اکیس ہزار مواقع پیدا کئے گئے۔