|

وقتِ اشاعت :   May 5 – 2016

کوئٹہ: بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے ناروے میں مقیم رہنما کچکول علی ایڈوکیٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچوں کی حراستی قتل عام پر انسانی حقوق کے اداروں و میڈیا کی دہری پالیسی اس بات سے صاف عیاں ہے کہ جب رینجر کی زیر حراست ایم کیو ایم کا کارکن مارا جاتا ہے تو اس کی لاش کو ایدھی سینٹر پہنچا کر فوجی سربراہ انکوائری کا حکم دے کر ان اہلکاروں کو بر طرف کر دیتا ہے،جبکہ بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل روز کا معمول بن چکی ہیں۔فورسزلوگوں کو حراست کے بعد قتل کر کے لاشیں ویرانوں میں پھینک دیتی ہے،مگر اس پر میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی سے و ایک مہاجر کی ہلاکت پر آواز اُٹھانے سے واضح ہو گئی کہ بلوچستان میں فورسز کو بلوچ نسل کشی کے اختیارات دیئے گئے ہیں اور میڈیا و انسانی حقوق کے ادارے بھی فورسز کی زبان بولنے میں اکتفا کر رہے ہیں۔ کچکول علی ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم کسی بھی قوم پر مظالم کی مخالفت کرتے ہیں مگر روزانہ کی بنیاد پر بلوچوں کو قتل کر کے کبھی جعلی مقابلوں کا نام دیا جاتا ہے اور کبھی عام لوگوں کے گھر و گاؤں کو بمباری سے تباہ کرکے صفحہ ہستی سے مٹا کر انھیں مزاحمت کاروں کے کیمپ کا نام دیا جاتا ہے۔اسی طرح قد آور شخصیت نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کر کے انکی جسدخاکی کو ایک بکس میں بند کر کے حقیقت کو ہمیشہ کیلئے چھپانے کی کوشش کی گئی۔ بی این ایم کے بانی سربراہ غلام محمد بلوچ کو میرے آفس سے اُٹھا کر چھ دن بعد لاش ویرانی میں پھینک دی گئی، جس کانہ کمیشن بنا نہ جوڈیشل انکوائری ہوئی۔ایسی ہزاروں مثال اور کارروائیاں ہیں جہاں بلوچستان میں فورسز کو ہر سزا سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ آج ہی آواران کے علاقے پیراندر زیلگ میں پوری آبادی کو محاصرے بعد فورسز نے خواتین و بچوں کو حراساں، چادر و چار دیواری کی پامالی کی اور گھروں میں موجود گندم و اناج اُٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس طرح یہ بلوچ قوم کو تیر و توپوں کے ساتھ خوراک پر پابندی لگا کر بھوک سے مارنے کے حربے بھی آزمانے کی کوششیں ہیں۔ اس طرح کی بربریت کی مثالیں دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔