|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2016

اسلام آباد: ایک ایسے وقت میں جب حکومت اور اپوزیشن جماعتیں پاناما اور دبئی لیکس کے بعد ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات اور تنقید کر رہی ہیں، غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 64 فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں کسی نہ کسی صورت کرپشن موجود ہے۔ رواں سال فروری میں ہونے والے اس سروے میں ملک بھر سے 603 مقامات سے منتخب کردہ 6 ہزار 30 افراد کے انٹرویو کیے گئے۔ منتخب کردہ افراد سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا گزشتہ 6 ماہ کے دوران حکومت کے 25 شعبوں میں سے کسی شعبے میں جانا ہوا ہے۔ ان شعبوں میں صحت، تعلیم، واپڈا، سوئی گیس، پولیس، عدالتیں، ریونیو، الیکشن کمیشن آف پاکستان، زراعت، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)، نادرا، میونسپلٹی، ریلوے، پی آئی اے اور انکم ٹیکس شامل ہیں۔ اس سوال کے جواب میں 3 ہزار 971 افراد نے مثبت رائے کا اظہار کیا، ان افراد میں سے ایک ہزار 751 افراد کا تعلق پنجاب، 999 کا سندھ، 703 کا خیبر پختونخوا، 276 کا بلوچستان، 29 کا اسلام آباد اور 213 کا فاٹا سے تھا۔ سروے کی معروضیت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ سوال صرف ان منتخب افراد سے پوچھا گیا تھا، جن کا گزشتہ 6 ماہ کے دوران کسی نہ کسی حکومتی شعبے میں جانا ہوا، سرکاری اداروں میں کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں میں 72 فیصد مرد اور 54 فیصد خواتین شامل تھیں۔ بلوچستان کے عوام کی بڑی تعداد 82 فیصد نے حکومتی شعبوں میں کرپشن کے حوالے سے مثبت رائے کا اظہار کیا، سندھ میں 74 فیصد، اسلام آباد میں 72 فیصد، پنجاب میں 68 فیصد، خیبر پختونخوا میں 52 فیصد اور فاٹا میں 8 فیصد عوام نے مثبت رائے دی۔ سروے کے لیے منتخب کردہ افراد میں سے 332 نے حکومتی ملازمین کو براہ راست رشوت لیتے ہوئے بھی دیکھا، جن میں سے بڑی تعداد پنجاب کی تھی۔