یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ قائد حزب اختلاف نے وزیراعظم کو خط لکھ دیا اور یہ کہا کہ حزب اختلاف حکومت سے محاذ آرائی نہیں چاہتی ۔اس کا ثبوت بھی حزب اختلاف نے پیش کی وہ وزیراعظم کو اس کے عہدے سے نہیں ہٹانا چاہتی اور نہ ہی اس سے استعفیٰ طلب کررہی ہے مگر اس کے باوجود بھی عمران خان کا لہجہ سخت ہے اور وہ جارحانہ انداز میں سیاست کررہے ہیں جو کسی طرح بھی ملک کے مفا دمیں نہیں ہے۔ بہر حال وزیراعظم عوام اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں اور وہ اپنے تمام اثاثے جو ملک کے اندر ہیں اور جو ملک کے باہر ہیں ظاہر کریں اور 1985ء سے ٹیکس کے گوشوارے بھی پیش کریں تاکہ عوام الناس کو یہ تسلی ہو کہ انہوں نے سرکاری حیثیت کا غلط استعمال نہیں کیاا ور دولت نہیں سمیٹی ،جو دولت کمائی ہے وہ جائز ہے۔ ویسے وزیراعظم سے یہ تمام باتیں کوئی نہیں پوچھتا اگر ان کے خاندان اور بچوں کا تذکرہ پانامہ لیکس میں ہوا جس کے بعد ملک بھر میں بحث شروع ہوئی اور بعض لوگوں اور سیاسی رہنماؤں نے ان سے اخلاقی بنیاد پر استعفیٰ طلب کیا تاہم پانامہ لیکس پر ملکی سیاست میں زیادہ گرمی آئی ہے ۔ وزیراعظم اور حکومت کے اتحادی پارٹیوں نے بھی عوامی جلسے کیے جس سے سیاست کی حدت میں اضافہ ہوگیا جو یقیناً نیک شگون نہیں ہے ملک شدید ترین بحرانوں کا شکار ہے بین الاقوامی طورپر پاکستان الگ تھلگ رہ گیا ہے ایران سے تعلقات میں بھی سرد مہری آگئی ہے افغانستان اور بھارت کا طرز عمل زیادہ جارحانہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پورے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ ادھر ایران کی جانب سے امریکا کے خلاف سخت سے سخت ترین بیانات آرہے ہیں اور وہ امریکا کو گلف سے نکل جانے کو کہہ رہا ہے بلکہ ایران نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ امریکی جہازوں کے لئے آبنائے ہرمز کی آبی گزر گاہ کو بند کیا جا سکتا ہے یہ سب کچھ پاکستان کے ساحل کے قریب ہورہا ہے ۔ پاکستان اور ایران کے درمیان 900کلو میٹر طویل سرحد ہے جو ایرانی اور پاکستانی بلوچستان کو ملاتی ہے اور طویل مشترکہ ساحل یا ساحل مکران کے نصف سے زائد حصہ پر ایران کا کنٹرول ہے اور دوسرا حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے روز بروز پورے خطے کی کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہورہا ہے ۔خطے میں بڑی تعداد میں غیر ملکی افواج کا اجتماع ہے جس کی وجہ سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں اس لئے سیاسی رہنماء ملک کی سیکورٹی اور سالمیت کے معاملات کو اولیت دیں اور جب خطرات ٹل جائیں تو ہر سیاست دان اپنا اسکور ایک دوسرے کے خلاف برابر کردیں مگر اولیت ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو ملنی چائیے۔ خود حکومت کی توجہ ان معاملات پر ہونی چائیے اور عوام الناس کو خطے کے حالات سے متعلق بھی اعتماد میں لیا جائے۔ تاہم وزیراعظم کے خلاف شکایات کو کسی طرح بھی پس پشت نہ ڈالا جائے تاکہ عوام کا مکمل اعتماد وزیراعظم کو حاصل رہے ۔ اگر وہ یہ محسوس کریں کہ وہ عوام الناس کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں تو ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دینا چائیے اس کے لئے احتجاج اور مظاہروں کی ضرورت نہیں پڑنی چائیے۔ ملکی معیشت اور سیاسی استحکام کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جائے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام بر قرار رہنا چائیے تاکہ نقصانات کم سے کم ہوں ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور وزیراعظم اپنے آپ کو پارلیمان کے سامنے احتساب کے لئے پیش کریں تاکہ جلسے اور جلوس نکالنے کی نوبت نہ آئے ۔دونوں فریقوں کے درمیان بدکلامی نہ ہو اور تلخی میں بھی اضافہ نہ ہو ۔ سارے معاملات پارلیمان کے فلور پر بحث کے لئے اٹھائے جائیں اور الزام تراشی سے پر ہیز کیا جائے یہ تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی استحکام کو یقینی بنائیں اور قانون کے دائرے میں رہ کر وزیراعظم کا احتساب کریں ۔