کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن شدت سے جاری ہے۔ بالگتر کے کئی علاقے چار دن سے محاصرے میں ہیں اور علاقہ مکینوں کو زبردستی خالی کرنے کیلئے آپریشن کے ذریعے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ آمد و رفت کے تمام راستوں کو بندکرکے علاقہ مکینوں پہ عرصہ دراز تنگ کیا جا رہا ہے۔ ایک دفعہ پھر مواصلاتی نظام کو جام کیا گیا ہے۔ تاکہ ریاستی مظالم کی خبریں منظر عام پہ نہ آ سکیں، قلات کے علاقے بینچہ میں گھروں پہ فورسزنے چھاپہ مار کر چادر و چار دیواری کی پامالی کی۔ خواتین و بچوں کو حراسان کیا۔ جمعہ کی روز تربت پروفیسرز کالونی سے دوسرے علاقوں سے امتحان کیلئے آنے والے دو طالب علموں کو اغوا کیا گیا۔ جس میں ایک کو بعد میں چھوڑ دیا گیا، دوسرا تاحال لاپتہ ہے۔ آج صبح تربت آبسر بلوچی بازار سے ایک اور طالب علم ثنا بلوچ کو فورسز نے اغوا کرکے لاپتہ کیا، جو ہوشاپ کا رہائشی ہے ۔ کوہلو کے علاقے کوٹان سمیت مختلف علاقوں میں آپریشن جاری ہے۔ سوئی آپریشن میں مختلف علاقوں میں فورسزنے چھاپہ مارکر چار بلوچ فرزندوں داتہ بگٹی، محمد ولد چولہ بگٹی، پاگیر ولد پلیہ بگٹی اور حکیم ولد شہداد کو اغوا کیا۔سوئی کے کئی علاقوں شاہی دربار، گزین، درنجن اور اوچ سمیت کئی علاقوں میں فورسز نے آپریشن کے نام پر خواتین و بچوں کی بے حرمتی کی۔ گھروں میں موجود سامانوں کو لوٹنے کے بعد گھروں کو جلا ڈالا۔مشکے کے علاقے جاڑین میں فورسز اور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے ایک گھر پر دھاوا بول کر قیمتی سامانوں کو لوٹنے کے بعد گھروں کو جلا دیا۔ آواران میں کولواہ کے مختلف علاقوں میں آپریشن کرکے فورسزنے قیمتی سامانوں کو چرا کر خواتین و بچوں کو حراسان کیا اور علاقہ خالی کرانے کی دھمکی دی۔ علاقہ خالی نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں ۔ مالار ، سری مالا اور وہلی سمیت کئی علاقوں میں آپریشن کیا گیا۔ کولواہ کے ان علاقوں میں گزشتہ سال 18 جولائی عیدالفطر کے دن شدید بمباری کرکے بے شمار لوگوں کو ہلاک و زخمی اور ہزاروں کو علاقہ بدر کیا۔ عام شہریوں کی ہلاکت کے چھپانے کیلئے کٹھ پتلی سرکار نے آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو دہشت گرد قراد دیکر اسے ان کے خلاف آپریشن قرار دیا۔ تاہم ایک سال سے یہ علاقے فوجی عتاب میں ہیں۔ ریاستی فورسز کی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا کے تمام ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فورسز اور نمائندے بلوچ نسل کشی میں مصروف ہیں۔ہزاروں بلوچوں کی ہلاکتوں، اغوا اور علاقوں سے زبردستی بے دخلی اور کئی اجتماعی قبروں کی برآمدگی جیسے جرائم کے ارتکاب پر ریاست کو قانون کے کٹہرے میں نہ لانا مہذب جمہوری ممالک اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی حیران کن ہے۔