|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کا واک آؤٹ کردیا۔ پوری کابینہ کے مستعفی ہونے تک ایوان میں روزانہ احتجاج اور واک آؤٹ کرنے کا اعلان کیا گیا ۔بلوچستان اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں میں اپوزیشن لیڈر اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنماء مولانا عبدالواسع نے کرپشن سکنڈل میں سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایک معمولی سیکریٹری تھے۔ ان کے گھر سے اتنی بڑی رقم برآمد ہوئی تو سو چیں چیف سیکریٹری اور دیگر حکام کے پاس کتنا خزانہ ہوگا۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ کرپشن میں بڑے بڑے مگر مچھ ملوث ہیں جن کے خلاف تحقیقات ضروری ہیں۔ مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی صرف مشیر خزانہ سے استعفیٰ لیکر انہیں قربانی کا بکرا بنارہی ہے۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ڈھائی سال تک کابینہ میں رہنے والے تمام ارکان اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائے۔ ان کی موجودگی میں شفاف تحقیقات ممکن نہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ دو ہزار دو سے کرپشن کی تحقیقات کی بات کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تحقیقات کا انیس سو اٹھاسی سے کیا جائے کیونکہ جمعیت علمائے اسلام بیس سے پچیس سال تک حکومتوں کا حصہ رہی ہے۔ اپوزیشن خود کو احتساب کیلئے پیش کرتی ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اپوزیشن چیمبر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ سب کو پتہ ہے کہ کرپشن کا پیسہ باہر بیٹھے ملک دشمنوں کے پاس بھیجا جاتا ہے اور دہشتگرد انہی پیسوں سے ہمارے بچوں اور بے گناہ عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ کوئی کابل میں بیٹھ کر پاکستان مخالف بات کرتا ہے اور کوئی لندن جاکر بیٹھ جاتا ہے۔ بہت سی دہشتگرد قوتوں کو یہاں کے حکومتی لوگ رقم اور بھتہ دیتے ہیں۔ مولانا واسع کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خاتمے کی جتنی باتیں کی جاتی ہیں اس سے زیادہ کرپشن کی جاتی ہیں۔ اپوزیشن جماعت اے این پی کے پارلیمانی لیڈر زمرک خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی چوری ایک بندے کا کام نہیں ہوسکتا۔ اس میں محکمہ ترقیات و منصوبہ بندی اور محکمہ خزانہ دونوں کے حکام ملوث ہیں۔ دونوں محکمے ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر کام نہیں کرسکتے۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ وہ اسمبلی کے ہر اجلاس میں احتجاج ریکارڈ کراکر واک آؤٹ کریں گے۔ یہ سلسلہ کابینہ کے مستعفی ہونے تک جاری رہے گا۔دریں اثنائبلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی کابینہ سیکرٹری فنانس کیس کی تحقیقا ت تک مستعفی ہوجائے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں بلوچستان اسمبلی کے ہر اجلاس میں احتجاج کے بعد کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے۔ یہ بات بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع ، ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی اور سردار عبدالرحمن کھیتران نے اپوزیشن چیمبر میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی اس موقع پر ارکان اسمبلی عبدالمالک کاکڑاور مفتی گلاب بھی موجود تھے۔ مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ہم بلوچستان کی روایت کے مطابق سب کا احترام کرتے ہیں اور میڈیا سمیت تمام لوگ ہمارے کردار سے بھی واقف ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج کا دن انتہائی افسوسناک ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ماضی میں مختلف حکومتوں میں شامل رہے اور و فاق سے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے رہے وفاق ی جانب سے تاثر دیا جاتا تھا کہ صوبائی حکومت فنڈز استعمال نہیں کرسکتی ہیں ہم نے نہ صرف اپنا پورا پی ایس ڈی پی استعمال کرکے دکھایا بلکہ وفاقی حکومت سے اوورڈرافت لیکر بھی کام کیا ہمارے دور میں ترقی ہوتی ہوئی نظر آنے لگی مگر صوبے کی ترقی اور خوشحالی کچھ لوگوں کو برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے ہماری حکومت ختم کروا دی اور جو اپنے آپ کو قوم پرست کہتے ہیں انہیں اقتدار دیا گیاجن کا مقصد صوبے کی ترقی کو روکنا ،وسائل کو لوٹنا تھا صوبے کے وسائل ملک کے خلاف کام کرنے والی بیرون ملک تنظیموں میں بانٹے جاتے رہے ہیں صوبے کے فنڈز گھروں میں الماریوں میں رکھے گئے صوبے کے فنڈز ان تنظیموں کو بھی دیئے گئے جو ملک کی مخالف ہیں موجودہ حکمرانوں نے برسراقتدار آکر یہ طریقہ اپنایا کہ ہر بات پر سابق حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے جائیں مگر اب انکے اپنے دور میں کرپشن کا اتنا بڑا واقعہ سامنے آیا نیب کی کارروائی پر حکمران پریشان نظرآتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف تو ہرجگہ تحقیقات کرائی گئیں مگر انہیں کچھ نہ ملا ۔انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے خلاف کابینہ کے استعفیٰ تک تحریک چلائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ 40ارب روپے کا سیکنڈل بلوچستان لیکس ہے یہ رقم ہم واپس لائیں گے ۔انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ دنیا کے ہر ملک میں احتساب کا عمل ہوتا ہے اب بھی ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ حکومت میں شامل قوم پرستی کے دعویدار چیف کمشنری صوبہ بحال اور برابری کی بات کرتے تھے آج وہ کہاں ہیں بلوچ اور پشتون حقوق کے دعویدار گورنر شپ اور وفاقی وزارت تک محدود رہ گئے ہیں ۔رکن اسمبلی سردارعبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ خالد لانگو نے خود استعفیٰ نہیں دیا بلکہ ان سے لیا گیا ہے ۔