بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پر معاشی منصوبہ بندی کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر گزارا ہوتا رہا ہے حالانکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام صوبائی اسمبلی سے منظور شدہ ہے اور با قاعدہ بحث اور مباحثے کے بعد اس کوپاس کیا جاتا ہے مگر سیکشن افسران آئے دن اس میں رد و بدل کرتے رہتے ہیں اس کی شکل مکمل طورپر بگاڑ دیتے ہیں بعض اوقات مزاقاً یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ماہانہ ترقیاتی پروگرام ہے سالانہ نہیں کیونکہ یہ افسران کی مرضی ہے کہ اس مختص رقم کو خرچ کریں نہ کریں یا کسی اور مدمیں خرچ کریں ۔مکران میں ایک سڑک کی تعمیر کی گئی، اس کے لیے کروڑوں روپے ہر سال اور ہر بجٹ میں مختص ہوتے رہے مگر ہر بار وزرائے اعلیٰ کو خوش کرنے کے لئے وہ مختص رقم ان کی ذاتی اسکیموں اور خواہشات پر خرچ ہوتے رہے اور 14طویل سالوں تک وہ سڑک تعمیر نہ ہو سکی کیونکہ افسر صوبائی اسمبلی سے زیادہ طاقتور ہے ہر وزیر اور ایم پی اے ان کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے ان کو خوش رکھنا چاہتا ہے ان کو ناراض نہیں دیکھنا چاہتا ۔ایک سابق وزیراعلیٰ کو رقم کی ضرورت ہوئی افسر اعلیٰ نے فوراً 14کروڑ روپے حاضر کردےئے ۔ بہ حیثیت صحافی ہماری سابق سیکرٹری خزانہ سے جھڑ پ ہوئی اور ہم نے پوچھا کہ آپ کے پاس صوبائی اسمبلی سے زیادہ اختیارات ہیں وہ کوئی جواب نہ دے سکے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہانہ ترقیاتی پروگرام کو فوراً بند کیاجائے ۔ خصوصاً ایم پی اے حضرات کے ترقیاتی فنڈ کو بھی بند کیاجائے کیونکہ ایسے شواہد ہیں بعض ایم پی اے حضرات نے ان ترقیاتی اسکیموں پر عمل نہیں کیا بلکہ ان تمام کو بی ڈی اے کے ٹھیکیداروں کے ہاتھ فروخت کردیا ۔ بعض نے بیس فیصد اور بعض زیادہ چالاک ایم پی اے حضرات نے پچیس فیصد کمیشن وصول کیا اور ان اسکیموں سے لا تعلق ہوگئے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ۔ اس لئے طویل مدتی منصوبے بنائے جائیں ان میں معاشی، تجارتی اور صنعتی یونٹ بنائے جائیں اور اس پر طویل مدت میں عمل درآمد ہوتا کہ بلوچستان میں روزگار کے وسیع ذرائع پیدا ہوں اور ساتھ ہی اس کا مقصد حکومت کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ تاکہ آئندہ سرمایہ کاری کے لئے وسائل دستیاب ہوں ۔ جس کو عام زبان میں Capital Formation کہا جاتا ہے اس کے ساتھ معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ا یک خوبصورت بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیاجائے تاکہ سرمایہ کار پنجاب اور سندھ کا رخ نہ کریں اور بلوچستان آئیں یہاں سرمایہ کاری کریں جہاں پر ان کو تمام تر اور بہترسہولیات فراہم کی جائیں ۔
چین پنجاب میں 37ارب ڈالر صرف اس لئے خرچ کررہا ہے کہ پنجاب میں سرمایہ کاری کے مواقع بہت زیادہ ہیں وہاں تربیت یافتہ کارکن موجود ہیں وہاں بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اس لئے چین کے سرمایہ کار وہاں سرمایہ کاری کررہے ہیں بلوچستان یا کے پی کے کا رخ نہیں کررہے کیونکہ یہاں پر بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے ۔ اسلئے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے بنیادی ڈھانچہ جو اچھی ہو تعمیر کی جائے اور انسانی وسائل کو تیز رفتاری سے ترقی دی جائے تاکہ سرمایہ کاروں کی ضروریات پوری ہوسکیں اس کے علاوہ حکومت خود سرمایہ کاری کرے، کارخانے لگائے، سییب، پھلوں اور کھجور کو محفوظ کرنے کے کارخانے لگائے تاکہ اشیاء کے قدر میں اضافے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع حاصل ہوں ۔ بلوچستان میں معدنیات کی ترقی کی راہ میں حکومت بڑی رکاٹ ہے ۔ معدنیات کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان لوہا ، اسٹیل ، تانبہ اور سونے سے اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔ اگر سوئی گیس کو جلانا بند کردیں اور اس کو خام مال کی حیثیت میں استعمال کریں تو بلوچستان سالانہ اربوں ڈالر کھاد کی فیکٹریوں سے کما سکتا ہے اس کو پنجاب میں مکھی کا بھٹہ پکانے کے کام میں نہ لیاجائے اس کو ملکی دولت سمجھاجائے اور اسکی حفاظت کی جائے اس سے پہلے کہ بلوچستان کے قوم پرست وفاق سے گیس کی قیمت کے 400ارب ڈالر کا مطالبہ کریں بلوچستان کو گیس سہولیات فراہم کی جائیں ۔