گزشتہ 67سالوں سے ماہی گیری کی صنعت کو جان بوجھ کر اور ریاستی پیمانے پر نظر انداز کیا گیا ہے بلوچستان کی حکومتوں میں وزرائے اعلیٰ اور وزراء صاحبان سب کے سب صرف اور صرف لفاظی کرتے رہے اور انہوں نے ماہی گیری کی ترقی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کی زندہ مثال پسنی ماہی بندر ہے حکمرانوں کی دلچسپی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پسنی ماہی بندر پسنی میں تعمیر ہورہا تھا اس کا چیئرمین کوئٹہ اور پروجیکٹ ڈائریکٹر اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں تھا اور ماہی بندر پسنی میں تعمیر ہورہی تھی۔ سالوں بعد یہ پتہ چلا کہ پسنی ماہی بندر کے بنیادی ڈھانچے میں زبردست خامی تھی جس کی وجہ سے ریت پسنی ماہی بندر کے چینل میں داخل ہورہا تھا اور آخر کار پسنی ماہی بندر بند ہوگیا کیونکہ جہاز رانی والے راستے ریت سے بھر گئے۔ اس طرح بیرونی امداد سے بننے والا پروجیکٹ بند ہوگیا۔ ماہی گیر اپنی مچھلی کراچی لے جاکر وہاں کوڑیوں کے دام فروخت کرنے لگے۔ یا کھلے سمندر میں غیر ملکی جہاز اپنے کارندوں کے ذریعے مچھلی پسنی اور گرد و نواح میں خریدتے اور اس کو جہاز کے اندر ہی صاف کرتے اور پھر فروخت کرتے تھے سالوں بعد پسنی ماہی بندر کی مکمل بحالی ہوئی اور دو ہزار سے زائد ماہی گیری کی کشتیاں اپنا شکار بندر گاہ پر فروخت کرنے لگے۔ وزیراعلیٰ نے اس کام کا باقاعدہ افتتاح بھی کردیا۔ امید ہے کہ پسنی فش ہاربر کی انتظامیہ سمندر سے ریت نکالنے کا کام خود کرے گی اور ماہی گیری کا یہ چینل ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا اگر ادارے کو Dredgingکے لیے مشین خرید کردی گئی۔ دوسرا مسئلہ غیر قانونی ماہی گیری ہے۔ سندھ سے ہزاروں کشتیاں بلوچستان میں غیر قانونی ماہی گیری میں ملوث ہیں۔ ان میں بعض ٹرالرز خوفناک جال استعمال کررہی ہیں جس سے سمندری حیات کا خاتمہ بڑی تیزی سے ہورہا ہے۔ ابھی تک اس کو نہیں روکا جاسکا بلکہ کرپٹ اور بدعنوان عناصر جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ ہیں بڑی بڑی رشوت لے کر سمندری حیات کو تباہ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بعض اداروں کے افسران فی ٹرالر یا کشتی ماہانہ 50ہزار روپے وصول کررہے ہیں۔ ایسی کشتیوں اور ٹرالرز کی تعداد ہزاروں میں ہے بعض ماہی گیروں کا خیال ہے دو ہزار سے 5ہزار کشتیاں اور ٹرالرز غیر قانونی طور پر مچھلی کے شکار میں ملوث ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مچھلی کے غیر قانونی شکار کو مکمل طور پر بند کردے ان تمام سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جو رشوت لے کر ان ٹرالرز اور کشتیوں کو غیر قانونی طور پر شکار کی اجازت دیتے ہیں بعض ٹرالرز اور بڑی کشتیاں ساحل کے نزدیک اور آبادی کے قریب آکر شکار کرتی ہیں۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی پہلی منتخب حکومت نے سب سے پہلے تین میل کے علاقے کو مقامی ماہی گیری کے لیے ایک محفوظ علاقہ قرار دیا تھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے ماہی گیروں کو قید، کشتیاں اور مال ضبطگی کی سزائیں بھگتنا پڑتی تھیں۔ سب سے اہم ترین نقطہ ماہی گیری کی ترقی ہے حکومت ماہی گیری کی ترقی کے لیے پانچ سالہ منصوبہ بنائے اور ماہی گیری کی مزید بندرگاہیں، سرد خانے اور پروسسنگ پلانٹ لگائے تاکہ صاف شدہ مچھلی آئندہ پسنی اور گوادر سے دنیا بھر کو برآمد ہو۔ ان کو کسی طرح بھی کراچی لے جانے کی اجازت نہ دی جائے سوائے سونمیانی اور ڈام کے بندرگاہوں کے ۔اس طرح سے مچھلی پکڑنے والی کشتیوں میں وہ تمام جدید آلات نصب کیے جائیں جو گہرے پانی میں بھی ماہی گیری کریں۔ اگر مشرقی ایشیاء کی طرز پر ہم بھی ماہی گیری کی صنعت کو قائم کرسکیں تو پاکستان کی پروٹین کی ضروریات ساحل مکران پورا کرے گا بلکہ پانچ سے چھ ارب ڈالر سالانہ غیر ملکی زرمبادلہ بھی کمائے گا۔ صرف یہ ایک سیکٹر اس قابل ہے کہ 10لاکھ افراد سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرے۔
بلوچستان میں ماہی گیری کی ترقی
وقتِ اشاعت : May 14 – 2016