|

وقتِ اشاعت :   May 16 – 2016

بلوچی اکیڈمی کی یہ کوشش قابل ستائش ہے کہ اس کے اراکین بلوچی زبان کو تعلیم کے شعبے میں رائج کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بعض ادیبوں نے بلوچی کے ابتدائی جماعتوں کے لئے کتابیں لکھنی شروع کردیں ہیں اور بعض کتابوں کو نامور ادیبوں اور لکھاریوں کے حوالے کیا گیا ہے کہ ان کی نظر ثانی کریں ان کو زیادہ بہتر بنائیں۔ ان نامور ادیبوں میں بلوچی زبان کی مشہور شخصیات اور سابق سرکاری ملازم شامل ہیں جنہوں نے اپنی بقیہ زندگی بلوچی زبان کی ترقی اور ترویج کیلئے وقف کردی ہے۔ حال ہی میں بلوچی اکیڈمی کی انتظامی کمیٹی کا اجلاس واحد بندیگ کی صدارت میں کوئٹہ میں ہوا جس میں اس پر تفصیل سے بحث کی گئی اور نامور ماہرین اور ادیبوں کی رائے کا جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ اسکرپٹ اور کتابوں پر نظر ثانی کی جائے اور مصنفین و مرتبین کو مسودہ واپس بھیجا جائے تاکہ وہ ان میں اصلاح کریں اور ان کو مزید آسان اور بہتر بنائیں ۔یہ پہلی کوشش ہے جو بلوچی اکیڈمی نے کی ہے اس کے اراکین اس بات کی جدوجہد کررہے ہیں کہ ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی کے درجہ تک بلوچی زبان میں کتابیں طلباء کو آسانی سے حاصل دستیاب ہوں تاکہ بلوچستان میں جلد سے جلد بلوچی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ بلوچی اکیڈمی کی اس کوشش کو سراہا جارہا ہے یوں بھی بلوچی اکیڈمی اپنے سارے وسائل صرف اور صرف بلوچی زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے وقف کردی ہے ۔ حال ہی میں سابق وزیرتعلیم اور معروف سائنسدان عطاء الرحمان نے اس بات کی زبردست حمایت کی ہے کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جائے اور بعد میں اردو اور انگریزی کو اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ 90فیصد علم اور تحقیق انگریزی زبان میں ہے اور اس سے استفادہ ضرور حاصل کیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ مادری زبان میں تعلیم کے بعد انگریزی یا اردو کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے۔ یہی بات اقوام متحدہ کے ادارے نے دہائیوں پہلے کہی ہے۔ حکومت بلوچستان نے تقریباً دو دھائی قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ مادری زبان کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ یہ فیصلہ پہلے شہیدنواب اکبربگٹی کی حکومت کے دور میں ہوا تھا اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ نوکر شاہی میں ایک بڑا طبقہ بلوچی زبان کو ابتدائی ذریعہ تعلیم بنانے کی مخالف ہے اس لئے یہ فیصلہ صرف حکومتی فیصلہ ہے اس پر عملدرآمد ضروری نہیں ہے۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے بھی اس معاملے پر صرف لفاظی کی اور صرف زبانی جمع خرچ کیا کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے تاکہ بلوچی کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچی بولنے والے تمام علاقوں خصوصاً سندھ اور پنجاب میں بھی بلوچی کو ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج کیا جائے کیونکہ وہ علاقے تاریخی طور پر بلوچستان کا حصہ رہے ہیں اور برطانوی سامراج نے اپنے سامراجی عزائم پر عملدرآمد کرنے کے لیے ان بلوچ علاقوں کو سندھ اور پنجاب کا حصہ بنایا۔ اگر کبھی صوبوں کی دوبارہ حد بندی ہوگی اور صوبے زبان اور قومیت کی بنیاد پر بنائے جائیںگے تو یہ علاقے بھی بلوچستان کا حصہ ہوں گے۔ اس لئے سندھ اور پنجاب کی حکومت سے توقع ہوگی کہ وہ بھی مادری زبانوں کوبطور ذریعہ تعلیم رائج کریں گے۔ بلوچی اکیڈمی واحد ادارہ ہے جو پورے بلوچ قوم کی نمائندگی کرتا ہے خواہ وہ دوسرے ممالک میں رہتے ہوں اس لئے بلوچی اکیڈمی آئے دن بین الاقوامی کانفرنسزمنعقد کرتی رہتی ہے اور اس کے اراکین دنیا بھر کے کانفرنسز میں شریک ہوتے رہتے ہیں ان کا مقصد صرف بلوچی زبان کی ترقی اور ترویج ہے۔