نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل خان بزنجو نے پارٹی کے اندر خود احتسابی کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اس کے لئے تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس کے سربراہ سابق سینیٹر طاہر بزنجو اور اراکین میں سینٹر کبیر محمد شاہی اور جان بلیدی شامل ہیں یہ کمیٹی تحقیقات کرے گی کہ اراکین اسمبلی اور سینٹ کے ممبران کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرے گی اگر دوران نمائندگی کمیٹی کو یہ ثبوت ملے کہ کوئی رکن اسمبلی یا سینٹ کا رکن کرپشن میں ملوث ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور اس کی رکنیت منسوخ کردی جائے گی ۔ یہ اعلان میر حاصل بزنجو نے اس وقت کیا جب بعض اپوزیشن جماعتوں اور خصوصاً بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے ڈاکٹر مالک اور اس کے کابینہ کے اراکین کے خلاف سنگین الزامات لگائے بلکہ وہ سنگین الزامات اسمبلی کے فلور پر لگائے گئے تاہم قائد حزب اختلاف نے اپنے ان الزامات کے دفاع میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے اور آج تک الزامات لگا تے رہے ہیں ۔ سابق سیکرٹری خزانہ کے گھر سے بڑی دولت برآمد ہونے کے بعد نیشنل پارٹی کے بعض رہنماؤں کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور انہوں نے اپنی شفافیت کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کردیا اسی دوران پارٹی رہنماؤں کے مشورے کے بعد مشیر خزانہ میر خالد لانگو نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور خود کو احتساب کے لئے پیش کردیا آئندہ چند روز میں وہ احتساب بیورو کے سامنے پیش ہوں گے اگر ان پر کوئی الزامات ہوئے تو ان کا جواب بھی دیں گے۔ مگر ان کے خلاف گواہ خود سابق سیکرٹری خزانہ ہے اور جو بھی الزامات خالد لانگو یا نیشنل پارٹی کے کسی بڑے رہنما پر لگائے جائیں گے تو ان کی پشت پر سابق سیکرٹری خزانہ کے تصدیق شدہ بیانات ہوں گے بلکہ وہ ابھی بھی احتساب بیورو کے زیر حراست ہیں تو دارو مدار سابق سیکرٹری خزانہ کے بیانات کا ہے ۔ البتہ خالدلانگو اور پارٹی کے دوسرے رہنما اپنی دفاع کر سکتے ہیں ۔ ظاہر ہے اتنی بڑی دولت کی لوٹ مار سیکرٹری خزانہ نے اپنے طورپر نہیں کی ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی زیادہ طاقتور ور سہولت کار ضرور ہوگا۔ اسی تناظر میں نیشنل پارٹی کا خود احتسابی کا عمل بے معنی نظر آتا ہے کیونکہ اگر کسی قسم کی کرپشن ثابت ہوتی ہے تو ریاستی ادارہ کارروائی کرے گا اس لئے ریاستی ادارے کو زیادہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کسی بھی ملزم کے خلاف قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائی کرے ایسی صورت میں نیشنل پارٹی کی ان ہاؤس کمیٹی صرف اور صرف پارٹی کارکنوں کی تسلی کا باعث بن سکتی ہے لیکن وسیع تر عوامی رائے عامہ کی نظر ریاستی ادارے پر اتنی بڑی دولت اور وہ بھی کیش کی صورت میں کیسے اکٹھی ہوئی ۔ کن کن لوگوں نے اور کون کون سے سیاستدانوں نے اس میں معاونت کی اور اگر کی تو اس کی وجوہات کیا ہیں ان کو بدلے میں کیا معاوضہ ملا کہ اتنی بڑی تعداد میں کرپشن کی وارداتیں کیں اور ظاہر ہے مفت نہیں کیں پورا پاکستان بلوچستان میں اس ڈرامے کو دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہا ہے احتساب بیورو نے غیر سرکاری ذرائع کو استعمال کرکے بعض لیڈروں پر سنگین الزامات لگائے وہ سب بلواسطہ تھے اور غیر سرکاری خبر رساں اداروں کی طرف سے تھیں تحقیقات کوئٹہ میں ہورہی ہیں ۔ اور اسلام آباد میں حکومت کے حامی اخباری نمائندوں ہم سے زیادہ بہتر معلومات رکھتے ہیں کہ کس شخص کی وجہ سے رئیسانی صاحب دوبارسیکرٹری خزانہ تعینات ہوئے اور وزیراعلیٰ نے بعض ادائیگیوں کی صرف زبانی منظوری دی ۔ یہ باتیں اسلام آبادکے صحافیوں نے عوام تک پہنچائیں کیونکہ احتساب بیورو کا بلوچستان کے نامور صحافیوں پر بھی کوئی اعتماد نہیں ہے کبھی کبھار یہ تاثر ملتاہے کہ احتساب بیورو کا واحد کام احتساب کرنا نہیں بلکہ لوگوں کے ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے ۔