کوئٹہ : جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیرمولانافضل الرحمن نے کہا کہ پانامہ لیکس کی منظر عام پر آنے کے بعد تحقیق کرو تحقیق کرو کہہ کر اچلنے والے کی خودآف شور کمپنی نکلی تو کہنے لگا کہ ٹیکس سے بچنے کے لئے انہوں نے ایسا کیا۔ لوگوں کو ٹیکس جمع کرنے کی ترغیب دینے والا خود ٹیکس چور نکلا ہمیں ایسے مخلوق سے واسطہ پڑا ہے عالمی قوتیں اس طرح کے لوگ ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہیں ہم پارٹی کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر اگلے سال سات آٹھ اپریل کو پشاور میں عالمی اجتماع کا انعقاد کریں گے جماعت نے سو سالہ مدت پوری کرلی ہے اب ہمارے اکابرین اور بزرگو ں کو بھی اطمینان اور قلبی سکون مل رہا ہوگا کہ انہوں نے جو امانت ہمیں حوالے کی تھی وہ ہم نے نئی نسل کو پہنچادی ہے ، کارکن کمر بستہ ہو کر ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں تاکہ باطل قوتیں بند کمروں کے خلاف بھی کبھی نہ سوچ سکے ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ ہاکی گراؤنڈ میں ورکر کنونشن سے خطاب کر تے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ جمعیت ایک تاریخ بن چکی ہے جس سے ہمیں حوصلہ مل رہا ہے کہ یہ جماعت نوزائیدہ یاپھر حالات کی پیدا وار نہیں بلکہ یہ سو سال پورے کررہی ہے جس پر میں کارکنوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ ہم کس اسلام کی بات کرتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ مولانا حسین احمد ،شیخ الہند اور شاہ ولی اللہ کے عقیدے اور نظریہ کے تسلسل والا اسلام ہے 1857 اور اس سے پہلے آزادی کی جنگیں لڑی گئیں دارالعلوم دیوبندکاپہلا طالب علم اور فاضل محمود الحسن تھے جو خلافت عثمانیہ کی ناکامی کے بعد 1916 ء میں پابند سلاسل کئے گئے اس دورا ن مفتی کفایت اللہ نے جمعیت کا خاکہ تیار کیا جب مولانا محمود الحسن 1919ء میں رہا ہوئے تو ان کے سامنے اس کا خاکہ پیش کیا گیا جنہوں نے اس خاکے سے اتفاق کرتے ہوئے جمعیت کی بنیاد رکھی ۔ انہوں نے کہاکہ تحریک آزادی کے لئے جماعت کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ، ہم اپنی تاریخ کو زندہ سلامت امانت اور دیانت کے ساتھ نوجوانوں کے حوالے کریں گے اب استعمار براہ راست ریاستوں کو کالونی نہیں بنا سکتا بلکہ وہ قوموں کی معیشت پر قبضہ کرکے راج کرتا ہے سامراج تو اسی کو ہی کہتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ سرمایہ دارانہ ، جاگیردارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی ہے ہم کسی جاگیردار ، سرمایہ دار ، خان ، نواب ، وڈیرے کے دشمن نہیں بلکہ ان کے رویوں کے دشمن ہیں ۔ سرمایہ کے طرز استعمال اور غریب کے ساتھ حیوان سے بدتر سلوک کے ہم دشمن ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ آج کل پانامہ لیکس کا بڑا چرچہ ہے ورکر کنونشن میں موجود لوگ پانامہ لیک یا پھر آف شور کمپنی کے متعلق نہیں سمجھتے وہ سمجھتے ہیں کہ شاید پاجامہ لیک ہے۔ انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنی سے متعلق نہیں جانتا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ آف شور کمپنی اس کی رجسٹریشن اور پیسہ کیسے جمع کیا جاتا ہے میں نے تو یہ چیزیں خواب میں بھی نہیں دیکھی ۔ انہوں نے کہاکہ پانامہ لیکس میرا اور جمعیت کا مسئلہ نہیں تاہم اسے ایک خاص زاویہ سے دیکھ کر نتیجہ اخذ کررہے ہیں ہمیں استعمار اور سرمایہ دارانہ نظام اور ان چند خاندانوں کے خلاف جنگ لڑنے کو سمجھنا ہوگا ۔ عالمی سرمایہ داریت کا نیٹ ورک کیا ہے اور کس طرح سے سرمایہ کے بل بوتے پر نیٹ ورک میں شامل لوگ حکمرانی کرتے ہیں کو سمجھنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ معین قریشی کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ، پاسپورٹ تھے اور نہ ہی ان کا نام ووٹ لسٹ میں درج تھا لیکن راتوں رات یہ تمام دستاویزات انہیں جاری کرکے یہاں حکمران بنایا گیا جو حکومت کرنے کے بعد واپس چلا گیا ہے ۔ شوکت عزیز کی بھی مثال ایسی ہی ہے اس سے پہلے وزیر خزانہ اور بعد میں وزیراعظم بنایا گیا ۔ پانامہ لیکس سے ہمیں ان کے پس پشت قوتو ں اور ان کے مقاصد کے متعلق معلوم ہوچکا ہے ہمیں سرمایہ داریت کے عالمی نیٹ ورک کا پتہ چل گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بڑی چالاکی کے ساتھ سیاسی بھون چال پیدا کی جارہی ہے کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کو مستعفی ہونا چاہیے ۔ تحقیقات سے قبل کیسے کسی کو مجرم ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں ایک سرمایہ دار کو ہٹا کر اسی نیٹ ورک کے کسی دوسرے فرد کو حکمران بنایا جائے سرمایہ دار اتنے دلیر ہیں کہ جس بیوروکریٹ کے گھر سے بلوچستان میں 67 کروڑ روپے ملے وہ کہتاہے کہ اس کے گھر سے 67 کروڑ نہیں بلکہ ڈھائی ارب روپے نکالے گئے تھے ۔ حقیقت یہ ہ یکہ یہاں 40 ارب روپے پکڑے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کو صلیب پر چڑھا کر سب بخشے نہیں جائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ حزب اختلاف نے پہلے پانامہ کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور ججز پرمشتمل کمیشن کا مطالبہ کیا جسے حکومت نے مان لیا لیکن ان کلینڈروں نے کہا کہ ہم اسے نہیں مانتے ۔ انہوں نے بلوچستان سے ریٹائرڈ ایک ایسے بیوروکریٹ کی سرپرستی میں معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جس کا دوران ملازمت اور بعد از ملازمت دونوں متنازعہ رہے ہیں ۔ انہوں نے تمام عمرمیرٹ کے مطابق فیصلے کرنے والے عزت دار ججز کو متنازعہ بنادیا بعد ازاں حزب اختلاف نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا کہا پھر کہا کہ ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہیے جس پر حکومت نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ آفیسران کی نشاندہی کرے حکومت کمیشن بنادے گی۔ آخرمیں حزب اختلاف نے سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جسے حکومت نے مانا تو اب ٹی آو آرز پر جھگڑا کھڑا کردیا گیا ہے یہ ایسا الفاظ ہے جس کے متعلق قوم نہیں جانتی ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ نے پہلے وزیراعظم کا نام آف شور کمپنیوں سے متعلق ویب سائٹ پر شائع کیا لیکن کچھ دنوں کے بعد انہوں نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کا نام آف شور کمپنی والوں کے لسٹ میں نہیں تاہم جو لوگ ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں ان میں سے کئی کے نام اس میں شامل ہیں جس سے ثابت ہوا کہ چور چور کہنے والے خود چور نکلے۔ چور کو ہم چور کہیں گے ایک چور کیسے چور کو کہہ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں کہ شاہراہوں پر یوٹرن کے نشان کی بجائے اس سیاستدان کی تصویرلگائی جائے جو ہر مسئلے پر یوٹرن لیتے ہیں لوگ ان کی تصویر دیکھ کر یوٹرن لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ سیاستدان نے مجھے نوٹس بھیجنے کا کہا اور کہا کہ وہ میرے خلاف عدالت جائیں گے میں نے کہا کہ صدبسم اللہ آپ جاؤ آپ کا کچا کٹا میں عدالت میں کھول دوں گا ۔انہوں نے کہاکہ کوئی بھی لیڈر اخلاقی ، نظریاتی اور مالیاتی کردار کی بنیاد پر قوم سے بات کرتا ہے اس لیڈر کا اخلاقی چہرہ تو دھرنے کے دوران ہی لوگوں کے سامنے آیاجس نے قوم کی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کر اسلام آبادمیں جنسی آلودگی پھیلائی ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ لیڈر کے سالے کے متعلق میں نے کہاکہ تھا کہ یہ انگلینڈ میں اسرائیل کیلئے کام کررہے ہیں جو ثابت ہوا کیونکہ انہوں نے لندن میں میئر شپ کے عہدے کے لئے مہم کے دوران جوبینر پیچھے آویزاں کیا اس پر سی ایف آئی یعنی ( کنزویٹیو فرنٹ آف اسرائیل ) درج تھا۔ ہمارے بھڑکیں مارنے والے سیاستدان نے انگلینڈ جا کر اس یہودی کی مہم میں حصہ لیا اور ایک مسلمان و پاکستانی کی مخالفت کی ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کی منظر عام پر آنے کے بعد تحقیق کرو تحقیق کرو کہہ کر اچلنے والے کی خودآف شور کمپنی نکلی تو کہنے لگا کہ ٹیکس سے بچنے کے لئے انہوں نے ایسا کیا۔ لوگوں کو ٹیکس جمع کرنے کی ترغیب دینے والا خود ٹیکس چور نکلا ہمیں ایسے مخلوق سے واسطہ پڑا ہے عالمی قوتیں اس طرح کے لوگ ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہیں ہم پارٹی کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر اگلے سال سات آٹھ اپریل کو پشاور میں عالمی اجتماع کا انعقاد کریں گے ۔جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ یہ جلسہ عام نہیں ورکرز کنونشن ہے بلوچستان کی سب سے بڑی سیاسی ومذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام ہے کامیاب اجتماع پر جمعیت کے صوبائی قیادت اور کارکنوں کو مبارکباد پیش کر تے ہیں ملک میں کرپشن کے حوالے سے ایک پونچال آیا ہے اور ہر طرف پانامہ لیکس اور خزا نہ لیکس کے حوالے باتیں گردش کر رہی ہے حکومت ہو یا اپوزیشن دنو ں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں اورسب اپنے جگہ پر ٹھیک کہتے ہیں گہرائی سے جائزہ لیا جا ئے تو سب ننگے نظر آتے ہیں جمعیت علماء اسلام نے پانامہ لیکس کے حوالے سے اصولی موقف اختیار کیا اور جن لو گوں نے وزیراعظم اور ان کے خاندان پر الزامات لگائے وہ خود پانامہ لیکس کے شکار ہو گئے جب تک پانامہ لیکس میں وزیراعظم ملزم سے مجرم ثابت نہیں ہو تے اس وقت تک استعفیٰ دینا جمہوریت روایات کے خلاف ہے احتساب بلا امتیاز ہونی چاہئے اور کسی کو بھی معاف نہ کیا جائے بلوچستان صوبہ غریب نہیں بلکہ بڑا امیر ہے نیتوں پر شک نہ کیا جائے ہم سچے پاکستانی اور قائداعظم سے محبت کرنے والے لوگ ہے سابق سیکرٹری خزانہ کے گھر سے برآمد ہونے والے 65 کروڑ روپے قائداعظم سے محبت کی وجہ سے گھر میں رکھے تھے اور محبت کے الزام میں گرفتار کیا گیا بلکہ اب تک سیکرٹری خزانہ نے الزام لگایا کہ میری گھر سے 65 کروڑ نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب روپے برآمد ہوئے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نیب نے بھی اپنا ہاتھ صاف کر لیا اور افسوس ہے کہ کوئٹہ کی خوبصورتی اور صفائی کی مد میں42 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں لیکن وہ بھی خرد برد کی نظر ہو چکے ہیں ۔