|

وقتِ اشاعت :   May 22 – 2016

حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان روز بروز کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے اس میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے ۔عمران خان نے تو سڑکوں کارخ کرلیا ہے اور آئے دن جلسے کررہے ہیں۔ دیگر پارٹیاں بھی خاموشی سے عمران خان اور اسکے تحریک انصاف کو مثبت اندازمیں دیکھ رہی ہیں کہ ان کی تابڑ توڑ تقاریر کا عوام الناس پر کیا اثر پڑتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں بعض پارٹیاں اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ کب عمران خان کی حمایت میں یا حکومت کی مخالفت میں وہ بھی جلسے کریں اور جلوس نکالیں حالانکہ بعض سیاستدان اس بات سے گریز کررہے ہیں کہ وہ نواز شریف سے قانونی طورپر استعفیٰ طلب کریں کیونکہ نواز شریف نے قومی اسمبلی میں جو کچھ کہا لوگ اس کو درست تسلیم نہیں کررہے ہیں سوائے مولانا فضل الرحمان کے جن کو اقتدار سے قربت بہت زیادہ پسند ہے خواہ کوئی بھی اقتدار میں ہو، نواز شریف یا کوئی اور ۔ سوشل میڈیا میں ابو حنیفہ کا یہ قول تیزی سے گردش کررہا ہے کہ ’’ کوئی عالم حکمران کے قریب ہو تو اسکے دین پر شک کیاجائے ،، سوشل میڈیا میں اس قول کے ساتھ مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف کے ملاقات کی تصویر بھی چھپی ہے چونکہ مولانا فضل الرحمان کو ایک عالم سے زیادہ ایک سنجیدہ سیاستدان سمجھتے ہیں اور ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ موجودہ صورت حال میں اپنی اور اپنے پارٹی کی کوئی رائے بنائیں ۔جمعیت علماء اسلام دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح بھی ایک سیاسی پارٹی ہے اور عوام الناس میں خاصی مقبول بھی ہے ۔ تاہم جے یو آئی کے علاوہ نیشنل پارٹی بھی نواز شریف کی حمایت کررہی ہے شاید اس بحران کی وجہ سے میر حاصل خان کی دیرینہ خواہش پوری کی گئی کہ اس کو کئی دہائیوں کے بعد مرکزی وزیر بنا دیاگیا جو ایک خوش آئند بات ہے کہ مرکزی کابینہ میں بلوچستان سے ایک اور وزیر کو شامل کیا گیا ہے ۔ باقی حزب اختلاف کی پارٹیاں بڑی شد و مد کے ساتھ حکومت کی مخالفت کررہی ہیں تاکہ نواز شریف کی جگہ کسی اور کو وزیراعظم بنایاجائے یعنی ن لیگ اپنا رہنما خود تبدیل کرے۔ ن لیگ کے پاس بعض سینئر اراکین موجود ہیں ان میں چوہدری نثار ، خواجہ آصف اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ جیسی قد آور شخصیات موجود ہیں جو یہ ادراک رکھتے ہیں کہ ملک کو کس طرح سے موجودہ بحرانوں سے نکالا جائے ۔اکثر حزب اختلاف کی جماعتیں اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے اور مارشل لاء نافذ کیاجائے جو آج کل کے حالات میں نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن نظر آتا ہے ۔ ہمارے خیال میں چوہدری نثار اور خواجہ آصف دونوں متنازعہ شخصیات ہیں ، ن لیگ کے اندر ان کی مخالفت بہت زیادہ ہے ان کے وزیراعظم بن جانے سے خطرہ رہتا ہے کہ پارٹی کئی گروپوں میں بٹ جائے گی ۔ن لیگ میں واحد اور غیر متنازعہ شخصیت جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ کی ہے جن پر ن لیگ میں اتفاق رائے ہوسکتا ہے ۔ دوسری جانب بین الاقوامی طورپر پاکستان کی ساکھ زیادہ تیزی سے بحال ہوسکتی ہے کہ ایک کمزور ترین صوبے سے طاقتور سیاستدان کو ملک کا وزیراعظم بنا یا گیاجس کے ذہن میں کسی قسم کے تعصبات نہیں ہیں اور نہ ہی تحفظات ہیں بین الاقوامی برادری میں ان کا امیج بہت اچھا بنے گا۔ دوست اور دشمن ممالک ایسے شخص سے ہر معاملے میں بات چیت کرنے یا تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ ان ہاؤس تبدیلی کے لئے جنرل (ر) قادر بلوچ موزوں ترین شخصیت ہیں جو پاکستان اور اس کے غریب عوام کی زیادہ بہتر انداز میں خدمت کرسکتے ہیں۔