|

وقتِ اشاعت :   May 22 – 2016

حکومت بلوچستان نے ایک بار پھر سوئی گیس فیلڈ کی لیز دس سالوں کے لئے پی پی ایل کو دے دی اس سلسلے میں ایک معاہدہ پر اسلام آباد میں دستخط ہوئے چیف سیکرٹری نے حکومت بلوچستان کی جانب سے معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس کے تحت بلوچستان کو سالانہ 7.4ارب روپے سالانہ رائلٹی ملا کرے گی اور چند کروڑ روپے ڈیرہ بگٹی یا بگٹی قبائل کی فلاح پر خرچ ہوں گے ۔پی پی ایل یا اس کے پیشرو ادارے سوئی گیس فیلڈ جن میں پیر کوہ ، سوئی ، لوٹی اور دیگر گیس کے ذخائر کو گزشتہ ساٹھ سالوں سے استعمال کررہے ہیں ابتداء میں تو صرف رائلٹی جو معمولی تھی بلوچستان کو ادا کی گئی ۔ بعد میں شہید اکبر بگٹی مرحوم نے زبردست احتجاج کیا کہ بلوچستان کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے ۔ سوائے بلوچستان پورے ملک ، خصوصاً پنجاب میں ان وسائل کو استعمال کیا جارہا ہے اوران علاقوں کو ترقی دی جاری ہے ۔ اس زبردست احتجاج کے بعد این ایف سی ایوارڈ 1991ء میں صرف دس ارب روپے سرچارج کے مقرر کیے گئے اور ان کی ادائیگی شروع ہوئی ۔ ہم نے اس وقت بھی اس کی مخالفت کی تھی اور یہ موقف اپنایا تھا کہ رقم نہ ہونے کے برابر ہے ۔ بلوچستان کو قدرتی گیس کی مکمل قیمت دی جائے جو سالانہ پانچ ارب ڈالر بنتاہے یعنی وفاقی حکومت بلوچستان کے صرف قدرتی گیس کی مد میں 300ارب ڈالر کا مقروض ہے ۔ بلوچ قوم پرست آج نہیں تو کل یہ مطالبہ کریں گے کہ قدرتی گیس کی پوری قیمت یعنی تین سو ارب ڈالر ادا کیے جائیں ۔ وجہ یہ ہے کہ قدرتی گیس کی وجہ سے پاکستان کو اس سے کہیں فائدہ گزشتہ ساٹھ سالوں میں ہوا ہے ۔ نیشنل پارٹی کی حکومت نے بلوچستان کے جائز مفادات کا دفاع نہیں کیا اور وفاق کو کھلی چھٹی دی کہ وہ پی پی ایل اور دوسرے اداروں کے حصص فروخت کرے اوربلوچستان کے معاشی مفادات کو شدید نقصانات پہنچائے ۔ ان جرائم پر نیشنل پارٹی کی حکومت کے اراکین کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا کیونکہ بلوچستان کے معاشی مفادات سر عام نیلام کیے گئے اور وہ اپنی کمزور نا پائیدار حکومت بچانے کی لاحاصل کوششوں میں لگے رہے ۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے قدرتی گیس کو نارووال بھارتی پنجاب کی سرحد تک پہنچا دیا ۔ نارووال احسن اقبال صاحب کا گھر اورحلقہ انتخاب ہے مگر یہ گیس گزشتہ تیس سالوں میں خضدار نہیں پہنچی ۔ غضب خدا کا کہ خضدار کے لئے وزیراعظم نے ایک ایل این جی پلانٹ منظور کرایا جبکہ پنجاب کے ایک ایک دیہات کو گیس پہنچانے میں سالانہ اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں ۔خضدار بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے جو گیس سمیت دنیا کی تمام نعمتوں سے محروم ہے ۔ اس طرح تربت اور دوسرے بڑے بڑے شہر گیس اور دوسرے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ صرف 7.4ارب روپے رائلٹی کے نہ دیے جائیں بلکہ پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل پر حکومت بلوچستان کا انتظامی کنٹرول بھی ضروری ہے سالانہ ان دو اداروں کا منافع 200 ارب روپے ہے جو سب کے سب بلوچستان کی ملکیت ہے ۔ ہم سیاسی پارٹیوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے حق کے لئے ضرور آواز اٹھائیں گے اور ان دونوں اداروں پر حکومت بلوچستان کا کنٹرول حاصل کریں گے۔ 7.4ارب روپے سالانہ رائلٹی کو مسترد کیاجائے اور وفاقی حکومت سے 300ارب ڈالر کے بقایا جات طلب کیے جائیں ۔