|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2016

مستونگ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قائد سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ آنکھیں جھکا کر نہیں آنکھیں اٹھا کر سیاست کی ہے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں رہنے والے کفن چور نکلے اگر قانون کے مطابق چور کا ہاتھ کاٹ لیا جائے تو صوبے میں حکومت معذوروں کی ہوگی ٹینکیوں اور بیکریوں میں نوٹ چھپانے والے کیا ریکوڈک و گوادر اور دیگر معدنی وسائل کا سودا نہیں کیا آج کا یہ تاریخی جلسہ عام عوام کا ٹاٹا مارتا ہوا سمندر اس شدید گرمی کے باوجود اپنی مدد آپ کے آپ کے تحت پارٹی کا جلسہ عام میں شرکت پرعوام کو سلام پیش کرتا ہوں مستونگ عظیم سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے زرخیز سرزمین ہے بلوچستان پر ظلم و ناانصافیوں کے خلاف ہمیشہ اسی سرزمین سے آواز بلند کی گئی ہے اور بلوچ قوم پرستی کی سیاست یہیں سے پروان چڑھی انگریز ، سول یا آمر حکمران مستونگ کے عظیم سپوتوں نے ہمیشہ ثابت قدم ہو کر جدوجہد کی ہے آج بھی تپتے سورج کی تپش کی طرح حالات بھی ایسے گرم ہیں ایک دور میں مستونگ سے پھولوں کی خوشبو آتی تھی آج خون کی بدبو آ رہی ہے مستونگ کی بلوچ ماؤں بہنوں کی چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں عیدوں کے دنوں میں عورتیں ماتم کناں ہوتی ہیں آج بلوچستان کے بلوچ فرزندوں کا جم غفیر یہاں موجود ہے انہیں پتہ ہے کہ ہم انہیں روزگار اور مراعات نہیں دے سکتے لیکن ہم ان کیلئے ضرور جدوجہد کریں گے مشرف دور سے اب تک بلوچ عوام قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں لیکن ہم ان کی عزت و نفس اور ماؤں بہنوں کی غموں کا مداوا ضرور کریں گے عوام کو پتہ ہے کہ یہاں وزیراعلی ، وزراء نہیں آئے عوام ہم سے مراعات کی توقع نہیں کر رہے اس کے باوجود انہوں نے آج ثابت کر دیاکہ عوام باشعور ہیں خزانہ لیکس کے ان لوگوں کو بخوبی پہچان گئے ہیں جنہوں نے عوام کے خون پسینے کی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا آج بلوچستان کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں عوام بھوک افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن گھروں ، بیکریوں ، ٹنکیوں سے روپے ، ڈالر ، پونڈ ، سونا برآمد ہو رہا ہے سی پیک اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ منصوبہ بلوچوں کی ترقی کے لیئے نہیں بلکہ یہ ترقی اسلام آباد اور چین کے سرمایہ کاروں کے لیئے ہیں اور ملک میں صرف حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے ضرورت اور مفادات کی خاطر آئین میں ترامیم کیں ہم کس طرح ایسے ترقی قبول کرے جہاں شہروں کے بجائے قبرستان آباد ہو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں عوام کو تعلیم صحت روز گار اور بنیادی سہولیات کے بجائے بے گورکفن مسخ لاشیں ملے اور ڈاکٹر مالک کے امن امان میں ہمارے کارکن سب سے زیادہ شہید ہوئے ہم کس طرح شہداء کو بھول جائیں سابق وزیر اعلٰی کے ناک کے نیچے صوبے کے تاریخ کا میگا کرپشن میں غوطہ لگانے والے قوم پرستی کے نعرے کو لپیٹ کر نام و نہاد قوم پرستوں نے اپنا سیاسی نماز جنازہ بھی خود پڑھ لیا ان خیالات کا اظہار انہوں نے مستونگ میںآغا ابراہیم شاہ کی یاد میں منعقدہ عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا جلسہ سے مرکزی سیکرٹری جنرل و سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ ، بی ایس او کے چیئرمین نذیر بلوچ ، منظور بلوچ ، رکن قومی اسمبلی واجہ عیسٰی نوری،ملک نصیر شاہوانی، بی این پی کے جوائنٹ سیکرٹری نذیر بلوچ ، مرکزی خواتین سیکرٹری زینت شاہوانی ،جاوید بلوچ ،نوراللہ بلوچ عبدالرحمٰن خواجہ خیل میر غفار جان مینگل بسمل بلوچ عتیق بلوچ دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض عبدالرحمان خواجہ خیل ، غفار مینگل ، بسمل بلوچ ، عتیق بلوچ نے سر انجام دیئے اس موقع پر پارٹی کے دیگر مرکزی و ضلعی قائدین بھی موجود تھے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اگر کھبی نقصان پہنچا ہے تو یہ ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے یہاں حقوق مانگنے اور حقوق کے لیئے جدوجہد کرنے والوں کو غدار قرار دیا جاتا رہا بلوچ قوم ایسے ترقی کے قطعی طور پر خواہاں نہیں جس میں ساحل وسائل کی لوٹ کھسوٹ بلوچوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ڈیموگرافک کی تبدیلی قومی بقا و تشخص کو خطرات لاحق ہو انہوں نے کہا کہ وسائل پر پہلا حق بھی اسی قوم کا ہے بلوچ قوم ایسے ترقی نہیں چاہتے جس سے یہاں کے باسی دو وقت کی روٹی کیلئے محتاج ہوں دوسرے طرف بین الااقوامی سطح پر اس خطے میں ترقی کی ڈھونگ رچایا جا رہا ہے جو زمینی حقائق سے برعکس ہے انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے ہمارے ساحل وسائل پر اختیارات دیا جائے ہم خیرات یا زکواٰ ٰ ۃ نہیں مانگتے انہوں نے کہا کہ سی پیک کے لیئے چین نے 46 ارب بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں مگر گوادر ڈیپ سی پورٹ کیلیئے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ زکواۃ کے مانند ہے انہوں نے کہا کہ گوادر کی ترقی یہاں کے عوام کے لیئے نہیں بلکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیئے ہوگا انہوں نے کہا اٹھارویں ترمیم پر دستخط کرنے والے خود مطمئن نہیں کیونکہ صوبوں کو اس ترمیم سے ابھی تک کوئی اختیارات نہیں ملے انہوں نے کہا کہ حکمران طبقہ صرف اپنے اختیارات بڑھانے کیلئے آ ئین میں اپنے ضرورت کے مطابق ترمیم کرکے اس پر عمل درآمد کراتے ہیں باقی آئینی ترامیم صرف محظ برائے نام ہوتے ہیں اس وجہ سے ملک کو کھبی آئین نے نہیں بچایا اور بلوچ قوم کو ان حکمرانوں کی نیت کا اندازہ چھ دہائیوں پہلے ہو چکا تھا انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو اپنے حق خودارادیت ساحل معدنی و سائل تشخص اور قومی بقا جغرافیہ کے لیئے عملی جدوجہد کر نے کی ضرورت ہیں ان حالات میں بلوچ نوجوانوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ علمی بنیادوں پر بھی لیس ہو کر ان حالات کا مقابلہ کرے مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں آج بھی بلوچستان کیلئے سازشیں ہو رہی ہیں نورنصیر خان کی سرزمین کو مختلف حوالوں سے پہلے ہی تقسیم کر دیا گیا تھا اب بھی اس کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں بی این پی نیپ کاتسلسل ہے میرے وطن کے باس آج بھی دو وقت کی روٹی کیلئے سرگرداں ہیں مختلف معاشی مسائل کا شکار ہیں پارٹی کے سرپرست اعلی سردار عطاء اللہ مینگل نے پوری زندگی اصولوں پر مبنی سیاست کی آج بھی اختر جان مینگل کی سیاست میں موجودگی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ گھرانہ بلوچ عوام کے امنگوں کی ترجمانی کر رہی ہے بلوچستان کے ساحل وسائل ، سیندک ، ریکوڈک ، دودر ، چمالانگ کے وسائل سے پنجاب اور کراچی کی ترقی ہو رہی ہے جبکہ ہمارے عوام آج بھی احساس محرومی کا سامنا کر رہے ہیں یہاں پر عوام کے مقدر میں آپریشن ، ناانصافیاں ، بھوک افلاس اور جہالت رکھ دی گئی ہے دوسری جانب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے نام نہاد قوم پرستوں نے عوام کی خدمت کے بجائے 40ارب روپے کا میگا کرپشن کر کے مزید عوام کو احساس دلایا کہ حکمران کی ترقی نہیں بلکہ اپنے محالات اور دولت میں اضافہ کر رہے ہیں بلوچستان وسائل سے مالا مال سرزمین ہے آج بھی یہاں عوام بے روزگاری کی وجہ سے ٹھوکریں کھا رہے ہیں حکمرانوں کے امتیازی سلوک کی وجہ سے ساحل وسائل ہمارا کنٹرول ہوتا لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے ہم اس دھرتی کیلئے حقیقی سیاست کر رہے ہیں اسی پاداش میں پارٹی رہنماؤں کارکنوں کو شہید کیا گیا جبکہ بعض لوگ قوم پرست لبادہ اوڑھ کر قوم کی دولت کو بیرون ملک منتقل کرتے ہوئے آج بھی شرم محسوس نہیں کر رہے ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ میگا کرپشن کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ اکیسویں صدی ہے عوام شعور رکھتے ہیں اور چور ، لٹیروں ، گروہی مفادات کی تکمیل کو پہچان چکے ہیں پہلے تو انہوں نے بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خاطر کسی بھی اقدامات سے گریز نہیں کیا بلوچ نسل کشی کے بعد جو رہی سہی کسر تھی وہ معاشی قتل کے ذریعے پوری کر دی انہوں نے ایک محکمے لوکل گورنمنٹ کے فنڈ سے 40ارب روپے کا غبن کیا اور آج بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں کر رہے ہیں ہمیں ان کا احساس ہے کہ انہوں نے خود اپنی سیاسی قبر کھودی جس طرح پہلے یہ بلوچ نوجوانوں کیلئے قبریں کھودتے تھے اور ان کو شہید لاپتہ ، ظلم و زیادتیوں کا نشانہ بنانے میں معاون و مدد گار ثابت ہوتے تھے آج انہوں نے اپنی سیاسی قبر کھود کر ثابت کر دیا کہ یہ مفاد پرست ٹولہ ہے اتنی بڑی کرپشن کا ایک سیکرٹری کرنا ممکن ہی نہیں یہ ان کی اپنی کارستانی ہے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے احکامات کے بغیر اتنی بڑی رقم کیسے خزانے سے نکالی گئی اب جب عوام احتساب کی باتیں کر رہے ہیں یہ سیخ پا ہو رہے ہیں اور ذہنی طور پر اتنے مشکلات کا شکار ہیں کہ انہیں بلوچستان کے سیاسی جماعتوں کے اکابرین اور نہ ہی سیاسی و صحافی حضرات کے خلاف بھی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں انہیں اتنے سیخ پاہ ہونے کی ضرورت نہیں عوام ان کو جان چکے ہیں اب یہ چور مچائے شور والا کی مانند ان کے بیانات ہیں انہوں نے کہا کہ پارٹی قائد سردار عطاء اللہ خان مینگل اور اس سرزرخیز سرزمین مستونگ میں ملک سعید دہوار ، عبدالرحمان خواجہ خیل ، فیض محمد یوسفزئی جیسے عظیم سپوتوں نے یکجا ہو کر جدوجہد کی آج 70سال گزر چکے ہیں مستونگ کے غیور بچے ننگے پاؤں ہیں تعلیم ، صحت روزگار نہیں عوام کو صاف پانی میسر نہیں اس سے قبل مختلف طریقوں سے آپریشن کر کے بے گناہ بلوچوں کی لاشیں پھینکی گئیں آج بھی مائیں بہنیں خون کے آنسو رو رہے ہیں ماورائے عدالت قتل و غارت کا دور دورہ ہے بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے دوسری جانب حکمران امن کے جھوٹے دعوے کرر ہے ہیں اور عوام جو کسمپرسی کے عالم میں نان شبینہ کے محتاج ہیں حکمران عوام کو بنیادی سہولیات سے میسر نہیں کر سکے لیکن دوسری جانب الماریوں ، ٹینکیوں ، بیکریوں سے نوٹ نکل رہے ہیں تاریخ کے بدترین شرمناک کرپشن پر حکمران اپنی چوری چھپاتے چھپاتے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں بلوچ نوجوان کو تعلیم میسر نہیں پانی ، صحت ، تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہسپتال ہیں تو دوائیاں نہیں گوادر ، ریکوڈک کا سودا کیا جا چکا ہے ۔