|

وقتِ اشاعت :   May 24 – 2016

تحریک طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور ایک امریکی ڈرون حملے میں احمد وال نوشکی کے قریب مارے گئے وہ ایک ٹیکسی میں سفر کررہے تھے جس کو انہوں نے تفتان کے سرحدی شہر سے کوئٹہ کے لئے کرایہ پر لیا ہوا تھا ۔ ڈرون حملے میں ملااختر منصور کے ساتھ ڈرائیور جن کا نام محمد اعظم بتایا جاتا ہے بھی موقع پر ہلاک ہوگئے ۔ڈرائیور محمد اعظم کا تعلق محمد حسنی قبیلے سے تھا ۔ ملا اختر منصور ایران کا دورہ مکمل کرکے واپس آرہے تھے کہ ان پر ڈرون حملہ ہوا اور ان کو موقع پر ہی ہلاک کردیا گیا ۔واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ مختلف ممالک کے جاسوس ادارے ان کا قریب سے پیچھا کررہے تھے شاید ایران کے اندر سے اور امریکی ڈرون حملہ شاید جان بوجھ کر نوشکی کے قریب احمد وال میں کیا گیا ۔ یعنی تفتان سے احمد وال تک اس کی نگرانی کی گئی ان کو شناخت شاید ایران کے اندر کیا گیا ہوگا اور افغان یا امریکی جاسوس ادارے ان کا پیچھا کررہے تھے ۔ اور ان کومکمل تیاری کے بعد نشانہ بنایا گیا ہوگا۔ واحد ڈرون حملہ تھا جس کی تصاویر اور ویڈیو جاری ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حملے کا مقام پہلے سے طے تھا اور اس پر عمل درآمد ہوا ۔ سوائے امریکی جاسوس اداروں کے افراد کو کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ملا اختر منصور تفتان سے کوئٹہ جانے کے لئے ٹیکسی میں سفر کررہے تھے ۔ اس لئے امریکا کے وزیر خارجہ نے وثوق کے ساتھ کہا کہ ملا اختر منصور ڈرون حملے میں مارا گیا ہے ۔ امریکی وزارت دفاع نے بھی اس کی تصدیق کی کہ صدر بارک اوبامہ اس کی پہلے ہی اجازت دے چکے ہیں کہ ملا اختر منصور پر حملہ کیاجائے اور ان کو ہلاک کیا جائے ۔ملا اختر منصور کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی شناختی کارڈ ملے ہیں جو قلعہ عبداللہ سے جاری ہوئے ہیں ملا اختر منصور نے ایران جانے کے لئے ایرانی قونصل خانے سے با قاعدہ ویزا حاصل کیا اس کے پاسپورٹ پر آمد اور روانگی کی تاریخ کا اندراج بھی ہے ۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان باتوں کی تصدیق کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملا اختر منصور نے کس طرح سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کیے ،انہیں کس کی مدد حاصل تھی، ان کے دستاویزات کی تصدیق کس نے کی؟ ان تمام باتوں کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چائیے اور ایسے تمام معتبرین جس نے ان کے دستاویزات کی تصدیق کی ہے ان کو گرفتار کیاجائے بلکہ ان نادرا افسران اور پاسپورٹ افسران کو بھی گرفتار کیاجائے ۔ واضح رہے کہ قلعہ عبداللہ میں نوے فیصد سے زیادہ افغان باشندوں نے پاکستانی شناختی کارڈ ، پاسپورٹ اور لوکل سرٹیفکیٹ حاصل کیے ہیں مقامی لوگوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے ۔ جب یہ پتہ چلا تو متعلقہ افسران نے پورے دفتر کو آگ لگا دی اور تمام ریکارڈ ضائع کردیا گیا تاکہ کوئی ثبوت نہ ملے ۔ممکن ہے کہ ان دستاویزات کو بھی ضائع کیا گیا ہو ۔ البتہ یہ سارا کام سرکاری سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں ۔اس میں رشوت دی گئی یا سیاسی اورانتظامی اثرورسوخ استعمال کرکے ملا اختر منصور کو پاکستانی شہری بنایا گیا اور وہ آزادی کے ساتھ غیرممالک کا دورے کرتے رہے ۔ لیکن سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکا نے ملا اختر منصور کو ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کیلئے بلوچستان کو کیوں چنا؟ شاید امریکا یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ملا اختر منصور دوسرے افغان طالبان رہنماؤں کی طرح پاکستان میں موجود ہیں ۔ یہ تو ثابت ہوا کہ ملا اختر منصور کو پاکستان کی سرزمین پر ہلاک کیا گیا، امریکا اس سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے کیا وہ افغانستان کے الزامات کی صرف تصدیق کرنا چاہتا تھا یا اس کا مقصد افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ بناناہے یا طالبان کے موسم بہار کے حملوں کا رخ پھیرنا چاہتاتھا کیونکہ طالبان جنگجوؤں نے افغانستان میں بعض اہم کامیابیاں حاصل کیں ہیں ۔ بہر حال خطے کے لئے یہ ایک اچھی خبر نہیں ہے اس سے خطے میں مزید کشیدگی پھیلے گی ۔