|

وقتِ اشاعت :   May 29 – 2016

وزیرداخلہ ہمیشہ کی طرح نیوز بریکر کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی پریس کانفرنسز میں سنسنی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور حقائق پر ہمیشہ پر دہ ڈالتے ہیں ۔ یہ بات کس کو معلوم نہیں کہ غیر ملکی افراد اس ملک میں صرف اور صرف حکمرانوں کی مرضی سے آئے ہیں اور حکمرانوں اور انکے گماشتوں نے ان کو تمام تر سہولیات فراہم کی ہیں ۔ ہندوستان ، برما، بنگالی اور افغانستان کے مہاجرین کو حکومت اور حکومتی اداروں نے مدعو کیا ،ان کو تمام سہولیات فراہم کیں ۔ جہاں تک شناختی کارڈ کا تعلق ہے افغان مہاجرین ، طالبان کو حکومتی احکامات کے تحت ہی فراہم کیے گئے۔ آسان نسخہ یہ ہے کہ ادارے خود ہی بتائیں کن کن لوگوں کو قومی شناختی کارڈ صرف ان کی شناخت چھپانے کیلئے جاری کیے گئے ہیں۔ ان کی فہرست دیں تاکہ ان کے کارڈ اور پاسپورٹ ،پالستانی شہریوں کو پریشان کیے بغیر منسوخ کیے جائیں ۔ خاص طورپر ان عناصر کی جن کی کوئی ضرورت نہیں یا اب ان کی اہمیت نہیں رہی ۔سیاسی بنیاد پر افغانوں کو پہلے 1970ء کی دہائی میں ، دوسری مرتبہ 1980ء کی دہائی اور تیسری بار افغانستان پر حملے کے بعد یا طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ، ان تینوں مواقع پر ریاست اور ریاستی اداروں کی افغانوں کے ساتھ زبردست ہمدردی رہی اور ان کے ذریعے تیس ارب ڈالر کا ہیروئن ایران کے راستے مغربی دنیا میں فروخت ہوا ۔ ہیروئن کی فیکٹریاں پہلے پاکستان میں تھیں جب دنیا بھر میں شور ہوا تو ہیروئن کی فیکٹریاں افغانستان کے اندر منتقل کردی گئیں۔ پس افغان ہمارے ملک کے لئے ہر دل عزیز باشندے تھے اس لئے ان کو کیمپوں میں نہیں رکھا گیا،ا ن کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا ان کو آج دن تک اجازت ہے کہ وہ مقامی آبادی میں گھل مل جائیں تاکہ ان کا پتہ کسی کو نہ چل سکے ، اب ضرورت کے وقت چوہدری نثار اپنی ٹیم کے ہمراہ ان کو تلاش کریں۔ جب افغانستان پر امریکا نے قبضہ کیا تو ہم نے بلوچستان اور کے پی کے میں ایک حکمت عملی کے تحت جمعیت علماء اسلام کی حکومتیں بنائیں جنہوں نے افغان طالبان کو یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ پاکستان میں ہیں ۔جے یو آئی کے وزراء وزرائے اعلیٰ سے زیادہ طاقتور بنائے گئے اور وہ وزرائے اعلیٰ کو احکامات دیتے تھے بلکہ ممکنہ طورپر مدرسوں کے نام پر افغان طالبان کی سرکاری سرپرستی میں مدد کرتے تھے۔ دو پشتون پارٹیاں جو دونوں مسلم لیگ ن کی اتحادی ہیں افغان طالبان اور غیر قانونی تارکین وطن کے حامی ہیں ۔ نادرا کے ایک اعلیٰ افسر نے الزام لگایا کہ ان سیاسی پارٹیوں کے کارکن نادرا کے کام میں جبراً مداخلت کرتے تھے۔ بعد میں ان پارٹی رہنماؤں نے ان الزامات کی تردید کی ۔جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ صرف اور صرف سرکاری سرپرستی میں بنتے رہے ہیں ۔ملامنصور افغانستان کا اہم ترین شخص تھا ۔ طالبان کا امیر تھا، کسی ہر کارے کی کیا ہمت کہ اس کا جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنائے۔ معلومات کے مطابق 2002ء کے بعد وہ مستقل پاکستان میں رہا اور پاکستان کے پاسپورٹ پر حکومت کی مرضی سے دنیا بھر کا سفر کرتا رہا ہے ۔ چوہدری نثار کا یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ موقع واردات پر کسی نے ان کا جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پھینک دیا تھا ۔ حالانکہ یہ دونوں پاکستانی دستاویزات ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھے اور مرحوم نے ان کو محفوظ رکھا تاکہ اس کی اصلی شناخت ظاہر نہ ہوسکے ۔ آخر میں ہم وزیر داخلہ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں بلوچ ، سندھی ، پنجابی ، سرائیکی ، گلگتی اور بلتستانی لوگوں کے شناختی کارڈ کی تصدیق کیوں کررہے ہیں۔ اگرا ان میں کوئی جرائم پیشہ ہے اور دو شناختی کارڈ یا ایک سے زیادہ پاسپورٹ رکھتا ہے اس کا پتہ لگائیں اور گرفتار کریں ۔ رہی غیر ملکی افراد کی بات ، ان کے جعلی شناختی کارڈ پر کیوں زیادہ زور ہے۔ ان کو فوری طورپر پہلے گرفتار کریں اور ملک بدر کریں۔ آپ فوج، نیم فوجی اداروں ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہ ہیں یہ گمان ہے کہ آپ وزیراعظم سے بھی زیادہ طاقتور ہیں تو حکم جاری کریں کہ پہلے تمام غیر ملکیوں ، ہندوستانیوں ، بنگالیوں‘ برمی افراد اور افغانوں کو گرفتار کریں اور ان کو ملک بدر کریں پاکستانیوں کو دوبارہ تصدیق کے نام پر مشکل میں نہ ڈالیں ،یہ سب بیرونی ممالک کے لوگ آپ کے نزدیک قیمتی سرمایہ ہیں اس لئے آپ نے کارروائی کا رخ موڑ کے اپنے ہی ملکیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔