|

وقتِ اشاعت :   May 29 – 2016

ہر آنے والے سیاسی یا فوجی حکومت نے بلوچستان کو بہ حیثیت وفاقی اکائی کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کو پنجاب کا ایک تحصیل سمجھ لیا اور اس لحاظ سے وفاقی حکمرانوں اور نوکر شاہی نے سلوک کیا۔ ظاہر ہے اتنا بڑا بلوچستان جو تمام صوبوں سے بڑا ہے اور جغرافیائی لحاظ سے حساس ترین اہمیت کا حامل ہے اس کے ساتھ امتیازی سلوک کا خمیازہ کبھی نہ کبھی بھگتنا پڑے گا ۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سالانہ پلاننگ کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے اور اعلان کیا کہ بلوچستان کے ساتھ انصاف نہیں امتیازی سلوک کیا جارہا ہے اس لئے وہ احتجاج کررہے ہیں، وہ اٹھ کر اجلاس سے چلے گئے ۔یہ اہم بات ہے کہ وزیراعلیٰ نے اس اجلاس میں ذاتی طورپر شرکت کی اس لیے اس اجلاس کی اہمیت بڑھ گئی لیکن اسی اجلاس میں بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا حالانکہ گزشتہ ادوار میں وزرائے اعلیٰ ان اجلاسوں میں صوبائی وزراء اور افسران کو روانہ کرتے تھے جن کو خود بھی بلوچستان کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ صرف اسلام آباد میں سیر و تفریح اور اپنے الاؤنسز بنانے آتے تھے ۔ ایک بار سابق وزیر خزانہ بلوچستان نے ایکنک کے بڑے اجلاس میں میرانی ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کردی اور یہ تک کہہ دیا کہ بلوچستان کی حکومت کے اہم ترین معاشی ترقی کے منصوبوں میں میرانی ڈیم کا منصوبہ شامل نہیں۔ اس کی وجہ سے میرانی ڈیم کا منصوبہ چودہ سال منصوبہ بندی کمیشن کے سرد خانے میں پڑا رہا لیکن اس بار اس اجلاس میں بلوچستان کی بھرپور نمائندگی تھی اور احسن اقبال جو ایک متکبر انسان سمجھتے ہیں اور خود کو پاکستان کے عقل مند ترین شخص سمجھتے ہیں جہاں ان کو موقع ملتا ہے ضرور بد تمیزی کرتے ہیں ۔ بی این پی کے آل پارٹیز کانفرنس کی کارروائی میں کئی بار رخنہ ڈالا حالانکہ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم ترین کانفرنس تھا جو پرسکون انداز میں صبح نو بجے سے شروع ہوا اور رات نو بجے ختم ہوا۔ اس ڈسپلن اور دلچسپی کو دیکھ کر پنجاب کے تمام بڑے بڑے لیڈر دنگ رہ گئے، اس اجلاس میں گڑ بڑ کی تو وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال تھے جو یہ حق محفوظ رکھتے تھے کہ معاشی معاملات پر بولنے کا حق پاکستان بھر میں صرف ان کے پاس ہے ۔ بہر حال وفاق کا رویہ بلوچستا ن کے ساتھ ہمیشہ معاندانہ رہا ہے ۔ اسکی سب سے بڑی مثال کچھی کینال ہے ۔ اس کینال کی تعمیر کا مطالبہ سب سے پہلے سابق گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے کیا تھا کہ دریائے سندھ میں سے ایک نہر نکال کر کچھی کے میدانی علاقے کو سیراب کیاجائے ،یہ علاقہ 74لاکھ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے ۔ 1991ء میں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا ۔ بلوچستان کی نمائندگی نواب ذوالفقار علی مگسی نے کی تھی اور پنجاب کی نمائندگی میاں شہباز شریف نے ۔ اس میں ایک فیصلہ ہوا تھا کہ بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی فراہم کیاجائے ۔ پچیس سال گزرنے کے بعد بھی یہ پانی بلوچستان کو نہیں ملا اس پانی کو سندھ اور پنجاب میں تقسیم کیا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ پانی کے استعمال کیلئے بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے ۔ وفاقی نوکر شاہی نے منصوبہ بنایا نہ فنڈز دئیے کہ اضافی نہری پانی بلوچستان کو ملے ۔ جب کچھی کینال کا منصوبہ تیار ہوا تو منصوبہ بندی کمیشن نے اس کے لیے فنڈ دینے سے انکار کیا ۔ بہت شور مچانے کے بعد یہ طے ہوا کہ اس کا پہلا مرحلہ تعمیر کیاجائے ۔ اس کے لئے تلاش کرکے کرپٹ ترین ٹھیکیدار اور انجینئروں کا انتخاب کیا گیا جنہوں نے رقم کھا لیا اور منصوبے کو تباہ کردیا۔ بیس سال کی تاخیر پراس کی تعمیر کے اخراجات میں صرف70 ارب روپے کا اضافہ ہوا آج بھی بے ایمان افسران جو منصوبہ بندی کمیشن میں ہیں یا واپڈامیں ہیں اس پر فوری عمل درآمد میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔گمان یہ ہے کہ اس کے اخراجات میں مزید ستر ارب روپے کااضافہ ہوگا اگر یہ آئندہ دو سال میں مکمل نہ ہوا ۔ اس میں بلوچستان کا زبردست نقصان یہ ہوا کہ سات لاکھ ایکڑ زرخیز زمین گزشتہ بیس سالوں سے غیر آباد ہے ۔ یعنی بیس لاکھ کسانوں کو بیس سال سے نان شبینہ کا محتاج رکھا گیا اور جان بوجھ کر رکھا گیا ہے ۔ دوسری جانب موٹر وے، لاہور بس سروس ، لاہور ٹرین سروس ،اسلام آباد بس سروس مہینوں میں تیار ہوتیہیں ،ان کیلئے فنڈز میں کوئی کمی نہیں ۔ وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے لیے اعلان کردہ وفاقی سالانہ ترقیاتی پروگرام پر پچاس فیصد کی کٹ ضرور لگائی جاتی ہے اس پر مکمل عمل درآمد بلوچستان میں کبھی نہیں ہوتا۔ اب جون کے ماہ میں فنڈ ریلیز کریں گے ، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس رقم کو ترقیاتی اسکیم پر خرچ نہ کرو بلکہ ہڑپ کرلو ۔ ایک ماہ میں کون سی سکیم مکمل ہوگی سوائے رنگ و روغن کے ۔