|

وقتِ اشاعت :   May 29 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع کیچ میں تیرہ روز قبل اغواء ہونے والے مزید تین سرکاری ملازمین کی لاشیں مل گئیں۔ دو مغویوں کی لاشیں دو روز قبل ملی تھیں۔ کالعدم تنظیم کے ہاتھوں اغواء ہونے والے پانچوں مغویوں کی موت شدید گرمی، بھوک اور پیاس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر کیچ یعقوب مری کے مطابق ضلعی ہیڈکوارٹر تربت سے تقریبا 110کلو میٹر دور گوادر اور کیچ کے سرحد پر دشت کے پہاڑی علاقے سائجی سے تین افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ لاشوں کی شناخت محکمہ تعمیرات و مواصلات کے ایس ڈی او فدا حسین بلوچ اور محکمہ آبپاشی کے سب انجینئر محمد ابراہیم اور سب انجینئر رحیم جان کے ناموں سے ہوئی ہے۔ تینوں افراد کو 15مئی کو دو دیگر ساتھیوں سمیت اغواء کیا گیا تھا۔ ٹھیکیدار چاکر بلوچ اور ٹھیکیدار محبوب رند کی کی لاشیں دو روز قبل اسی علاقے سے ملی تھیں۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق سیکورٹی فورسز کی جانب سے تعاقب کے بعد اغواء کاروں نے پانچوں مغویوں کو دور دراز اور ویران علاقے میں چھوڑ دیا تھا۔ اموات شدید گرمی میں پانی اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ لاشیں کئی روز پرانی اور شدید گرمی کی وجہ سے خراب ہوچکی تھیں اور لانے کے قبل نہیں تھیں اس لئے تینوں افراد کی اسی علاقے میں تدفین کردی گئی۔ واضح رہے کہ ان تین سرکاری ملازمین اور دو ٹھیکیداروں کو 15مئی کو اس وقت اغواء کیا گیا تھا جب وہ دشت کے علاقے میں سابق رکن صوبائی اسمبلی اصغر رند کے فنڈز کے تقریباً نو سال پرانے منصوبوں کا جائزہ (انسپیکشن)لینے جارہے تھے۔ اغواء کے واقعہ کی ذمہ داری کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی نے قبول کی تھی ۔ اغواء کے دو دنوں بعد سیکورٹی فورسز نے مغویوں کی بازیابی کیلئے علاقے میں سرچ آپریشن کیا۔ تعاقب پر اغواء کاروں نے مغویوں کو پہاڑی پر ہی چھوڑ دیا تھا۔ متوفی فدا محمد بلوچ کے بھتیجے سراج بشیر رند نے بتایا کہ پانچوں افراد کی موت کی ذمہ دار حکومت اور کالعدم تنظیم بی آر اے دونوں ہیں۔ کمشنر مکران ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر کیچ نے سرکاری ملازمین اور ٹھیکیداروں کو زبردستی اس غیر محفوظ علاقے میں سیکورٹی کے بغیر بھیجا ۔ ’’میرے چچا سمیت ملازمین اور ٹھیکیدار اس علاقے میں جانے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن انہیں زبردستی بھیجا گیا۔ ‘‘ سراج بشیر رند نے بتایا کہ اس علاقے میں اسسٹنٹ کمشنر اور نہ ہی تحصیلدار بیٹھتے ہیں پھر سرکاری ملازمین کو سیکورٹی کے بغیر کیونکر بھیجا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پانچوں افراد مقامی اور بلوچ تھے۔ کالعدم تنظیم انہیں اغواء کرنے کا کوئی جواز نہیں پیش کرسکی ۔ کیا وہ غدار تھے ؟ کیا انہوں نے کوئی بلوچ دشمن اقدام اٹھایا تھا ؟‘‘ ۔سراج بشیر رند کے مطابق اغواء کے بعد بھی کالعدم تنظیم نے مغویوں کی دیکھ بھال نہیں کی۔ انہیں ناہموار دور دراز پہاڑی اور غیر آباد علاقے میں لے جایا گیا جہاں پانی اور نہ ہی خوراک کا بندوبست تھا۔ انہیں ایسی پہاڑی پر لے جایا گیا جس پر کسی نوجوان کو بھی چڑھتے ہوئے انتہائی دقت ہوتی ۔ ہمیں بھی اس پہاڑ پر پہنچتے ہوئے پانچ گھنٹے سے زائد لگے۔ فدا حسین بلوچ اور ابراہیم کی لاشیں بہت پرانی تھیں اور ہمارا اندازہ ہے کہ وہ دوران قید ہی پانی اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے انتقا ل کر گئے تھے ۔ ’’انہیں ایسی جہاں لے جایا گیا جہاں وہ کئی دن زندگی اور موت کی کشمش میں مبتلا رہے اور انہوں نے تڑپ تڑپ کر جان دی۔ اس سے اچھا تھا کہ ہمارے پیاروں کو گولی ہی مار دی جاتی ۔ کم از کم وہ تڑپنے کی بجائے آسانی سے مر تو جاتے ۔ ‘‘فدا بلوچ کے بھتیجے کا کہنا تھا کہ اگر اغواء کاروں نے انہیں چھوڑنا ہی تھا تو کسی آبادی کے قریب چھوڑ تے ۔ اس واقعہ کے بعد کالعدم تنظیم کے خلاف علاقے میں بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی نفرت کا اظہار کیاجارہا ہے ۔ سراج بشیر رند نے مغویوں کی بازیابی اور پھر لاشوں کی تلاش کے عمل میں حکومت کی جانب سے مدد نہ ملنے پر بھی غم و غصے کا اظہار کیااور کہا کہ جب ڈپٹی کمشنر کو اغواء کیا گیا تو ان کی بازیابی کیلئے قبائلی معتبرین کو بھیجا گیا اور ان کی کوششوں سے ڈپٹی کمشنر کو بازیابی بھی مل گئی لیکن ہمارے پیاروں کی بازیابی کیلئے طاقت کا استعمال کیوں ضروری سمجھا گیا ۔ مذاکرات کی کوشش کی ہی نہیں گئی۔ انہوں نے کہا کہ لاشوں کی تلاش کیلئے حکومت کی جانب سے خاطر خواہ مدد نہیں کی گئی۔ ہم پانچوں مغوی افراد کے 60سے70رشتہ داروں نے مغویوں کی تلاش کیلئے علاقے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے پانی ، خوراک کا ذخیرہ لیکر تلاش کیلئے نکلے ۔ پہلے دن ہمیں محبوب رند اور چاکر کی لاشیں ملی ہیں جو ہم اپنے آبائی علاقے پہنچانے میں کامیاب رہے لیکن میرے چچا سمیت باقی تین مغویوں کو شدید گرمی میں پہاڑسے نیچے لانا اور پھر اپنے آبائی علاقے منتقل کرنا بہت مشکل تھا اس لئے ہم نے ان کی وہی تدفین کردی۔ یہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا لیکن اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔دوسری جانب مغوی ٹھیکیدار چاکر بلوچ کے بڑے بھائی نصیر احمد بلوچ کا مؤقف ہے کہ مغوی افراد کی موت بھوک اور پیاس سے نہیں بلکہ اآپریشن کید وران زہریلی گیس سے دم گھٹنے سے ہوئی ہے۔ اگر آپریشن نہ کیا جاتا تو ہمارے پیارے بحفاظت گھر پہنچ سکتے تھے۔ ادھر مغوی محبوب رند کے بہنوئی سابق صوبائی وزیر میر اصغر رند کہتے ہیں کہ مغویوں کی المناک موت کے ذمہ دار سرمچار اور مقامی انتظامیہ ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس ثبوت بھی ہیں ۔ متاثرہ خاندان سوگ اور تعزیت کے بعد باہم بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل طے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی نا اہلی کی انتہاء ہے کہ اطلاع کے باوجود لاشیں تین سے چار دن تک پڑی رہی لیکن مقامی انتظامیہ کے کانوں میں جاں تک نہیں رینگی۔ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا ۔ حالانکہ مغوی افراد خود اپنی مرضی سے اس علاقے میں نہیں گئے تھے بلکہ حکومت نے خود انہیں بھیجا تھا۔ جبکہ سرمچاروں کی جانب سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کیا گیا اور ان کے اغواء سے لیکر موت تک انہیں سخت گرم موسم میں بے یارو مددگار ایک وسیع و عریض صحرا و بیابیاں میں چھوڑا گیا ۔ یہ عقل و شعور سے عاری فیصلہ تھا ۔تاہم ڈپٹی کمشنر کیچ کا کہنا ہے کہ لاشوں کی تلاش کیلئے مقامی انتظامیہ کے اہلکار بھی بھیجے گئے ۔ پہلے ایک علاقے تک پہنچ کر کیمپ لگایا گیا اور پھر آگے گئے۔ تلاش کے دوران لیویز اہلکاروں کی گاڑی کو حادثہ بھی ہوا ۔واضح رہے کہ کالعدم تنظیم بی آر اے کی جانب سے ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ تنظیم کے دو ارکان بھی اس واقعہ کے دوران ہلاک ہوئے جن میں سے ایک کی شناخت قدیر کے نام سے ہوئی۔