|

وقتِ اشاعت :   May 30 – 2016

کوئٹہ :  پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کو درپردہ قوتوں کی اشیر باد حاصل نہیں ، عوام ہمیں ووٹ دیں ہم انہیں بااختیار بنائیں گے ، میرا ایمان اور یقین ہے کہ ملک کی تقدیر عوام کے ہاتھوں میں ہیں ، جان لینے ، دینے ، مرنے اور مارنے کا سلسلہ ختم کرکے ملک سے نفرتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں ، ہم دو افراد کے ایم کیو ایم سے نکل جانے کے بعد اس کا نوشتہ دیوار پڑھا جاچکا ہے ، کراچی میں قبرستانوں کے علاوہ کسی چیز نے ترقی نہیں کی ، انڈین فنڈز فراہمی کا مقصد کراچی میں صحت ، تعلیم اور دیگر شعبوں کی ترقی نہیں بلکہ اسے نمبرز چاہیے تھے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں مسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ کے محمد اصغر خلجی ، جنت گل خلجی ودیگر کے ساتھیوں سمیت پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کے موقع پر منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آنے کے بعد ان سے مختلف لوگوں کے رابطوں کا سلسلہ گزشتہ روز سے جاری ہے جو آئندہ بھی جاری رہے گا تاہم ہم بہت سے لوگوں کے علاقوں کے دورے کی دعوت قبول کرسکے ہیں اور نہ ہی شامل ہونے والوں کی جانب سے اجتماع عام کرانے کی دعوت ۔ آنے والے وقتوں میں ہم عوام اور کارکنوں کے اجتماعات سے ضرور مخاطب ہوں گے ، ہم پاکستان میں نفرتوں کا خاتمہ کرکے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی چاہتے ہیں ۔ ہماری جماعت ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی سیاسی جماعت ہے جس کا کوئی جھنڈا نہیں بلکہ تمام لوگ پاکستان کا جھنڈا لے کر ہمارے پروگرامز میں شرکت کرتے ہیں ہمیں امید ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں ہماری جماعت ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی ۔ انہوں نے کہاکہ ہم آئین کے تحت لوگوں کو اختیار دے کر ان کی تعلیم ، صحت سمیت دیگر مسائل ختم کرنا چاہتے ہیں عوام ہمیں ووٹ دیں ہم انہیں اختیار دیں گے اس منشور اور فلسفہ پر تو لوگ ہمارے گرد جمع ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کام دلوں کو جوڑ کر نفرتوں کو ختم کرنا ہے ہم سچ کی راہ پر گامزن ہے اس لئے کوئی زبان ، رنگ ، نسل اور مسلک اس کی راہ میں آڑے نہیں آسکتی ۔ مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ میرا یمان اور یقین ہے کہ اس ملک کی تقدیر عوام کے ہاتھوں میں ہیں اور وہ خود اسے تبدیل کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک بھر میں ایک ایک گھر بار بار جا کر لوگوں سے مل بیٹھیں گے وہ ہماری جماعت میں شامل ہو یا نہ ہوتاہم ہمیں سیاسی دشمنی اور بغض کا خاتمہ کرنا ہے ہم چاہتے ہیں کہ جان لینے ، دینے ، مرنے اور مارنے کا سلسلہ ختم ہو ۔ انہوں نے کہا کہ انیس قائم خانی ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنونیئر جبکہ میں نومنتخب سینیٹر تھا اس کے باوجود بھی ہم نے عہدوں کو لات مار کر ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کی کیونکہ ہم مصنوعی فوٹو سیشن کی بجائے لوگوں کو درپیش مشکلات کا خاتمہ اور دکھوں کا مداوا چاہتے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم کی دیوارسے میری اور انیس قائم خانی کی شکل میں 2 اینٹیں نکلی تو اس جماعت کا دیوار دھڑام سے زمین بوس ہوا ۔ ہمارا پارٹی کے قائدین اور دیگر سے سیاسی مسئلہ نہ تھا جو لوگ بغاوت کرتے ہیں ان سے جماعت کے لوگ رابطہ نہیں کرتے تاہم ہمیں بار بار آنے کا کہا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں بھی کسی بھی شعبے میں ترقی نہیں ہوئی تاہم قبرستانوں کی رونق ضرور بحال ہوئی ۔ ان کا کہناتھا کہ کراچی میں گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران 35 ہزار ایسے لوگ مارے گئے جن کا تعلق ہر نسل ، مسلک ، زبان بولنے والوں سے تھا ۔ انڈیا نے کراچی میں تعلیم ، صحت اور دیگر کے لئے پیسے نہیں دیئے بلکہ انہیں نمبرز چاہیے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پی ٹی آئی اور پی پی پی چھوڑنے والوں کی طرح نہیں جو پارٹی چھوڑنے کے باوجود بھی اسی حیثیت اور ویسے ہی گھروں میں رہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو درپردہ قوتوں کی اشیر باد حاصل نہیں جن کو اس سلسلے میں شک ہے وہ آئیں ہم ان کے سامنے پوری جماعت اور اس کے تمام معاملات کا پوسٹ مارٹم کرنے کو تیار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے ہوتے تو ایم کیو ایم میں ہی رہتے اس کے چیدہ چیدہ لوگ ا ب بھی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقاتیں کررہے ہیں الطاف حسین کی بار بار معافیاں بھجوانے اور ایک مرتبہ ملاقات کے لئے ایک کروڑ 60 لاکھ روپے دینے کی خبریں اور اس سلسلے میں فاروق ستار کا بیان سب کے سامنے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات سیاسی فوائد دیتی تو آج پیر بگاڑا جو اپنے کو اسٹیبلشمنٹ کا آدمی کہتا ہے وزیراعلیٰ سندھ اور چوہدری شجاعت وزیراعظم ہوتے ۔ انہوں نے کراچی سے بلوچستان لاشیں آنے اور وہاں مخصوص انداز میں حلقہ بندیوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا کہ حلقہ بندیاں ہو یا پھر وسائل کی تقسیم سمیت مختلف امور بارے اتنی بے اعتمادی پھیل چکی ہے کہ اسے ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ پانی کا مسئلہ ہو یا پھر ڈیم کا یہ سب بداعتماد ی کی وجہ سے حل نہیں ہوپارہے بے اعتمادی ختم ہو تو ایک چائے کے کب اور کافی پینے کے وقت میں بھی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ 12 مئی کے ذمہ داروں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وہ ہزار بار وضاحت دے چکے ہیں ان سے ایسے سوالات نہ کئے جائیں جو ان سے تعلق نہیں رکھتے وہ اب ان لوگوں کے ساتھ نہیں ۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر خاتون سے بدسلوکی بارے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ وہ خاتون ان لوگوں کی جانب سے ان کے پاس بھجوائی گئی تھی جسے اس نے عوام کو لوٹنے کی پاداش میں نوکری سے برخاست کردیا تھا انہوں نے عباسی ہسپتال پر اربوں روپے خرچ کئے مگر نوکری سے نکالا جانا وا لا شخص جو انہی کے اس وقت کے جماعت میں سے تھا نے ہسپتال کے سامنے لیبارٹری بنائی اور سرکاری ہسپتال میں ٹیسٹ کرنے کی بجائے مریضوں کو وہاں بھیجتا رہا جس پر انہوں نے ان کے خلاف کاروائی کی تو بعد میں اس خاتون نے میڈیا کے سامنے ڈرامہ بازی کی ۔ نوکری سے نکالے گئے کے لئے امریکی صدر بارک اوباما کے علاوہ ہر طرح کے لوگوں نے انہیں فونز کئے اور اسے واپس سیٹ پر بحال کرنے کی سفارش بھی کی جس وقت خاتون اس کے پاس آئیں اس وقت وہ اس ہسپتال میں ایک وارڈ کا افتتاح کررہے تھے جیسے ہی میڈیا نمائندوں نے کیمرے آن کئے تو انہوں نے ڈرامہ بازی کی ۔