گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی اور وفاقی حکومت کی توجہ بلوچستان میں سیم اور تھور سے ہٹ گیا ہے حکمرانوں کو ذاتی مفادات کے تحفظ سے فرصت نہیں اور نہ ہی بلوچستان کے نوکر شاہی کو عوامی مسائل اور مشکلات سے دلچسپی ہے ۔ وہ صرف حکمرانوں کی چاپلوسی میں ملوث پائے جاتے ہیں سب کے سب نہیں بلکہ نوکر شاہی کا ایک اچھا خاصا حصہ خوشنودی کے کام میں ہمیشہ مصروف رہتا ہے ۔ پٹ فیڈر کی تعمیر کے بعد بلوچستان میں سیم اور تھورکا مسئلہ پیدا ہوا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ نہر تعمیر کی گئی تھی جس کا مقصد صرف سابق فوجیوں کو بلوچستان میں بھی نہری زمین الاٹ کرنا تھا ۔ پہلے یہ سندھ اور سرائیکی علاقے میں ہوا تھا اور یہ پالیسی بڑی حد تک کامیاب رہی تھی اکثر ریٹائرڈ فوجی افسر نہری زمین ملنے پر خوش تھے ۔ بلوچستان میں اس اسکیم کی زبردست مزاحمت کی گئی 1960ء کی دہائی میں بلوچ قبائل نے پٹ فیڈر کمانڈ ایریا کے تحفظ کے لئے زبردست جنگ لڑی اور آخر کار ایوب خان کو مجبور کردیا کہ وہ اپنا یہ منصوبہ ترک کردیں اور قبائل کو اجازت دے کہ وہ اپنی آبائی اور قبائلی زمین آباد کریں ان پر کیتھی باڑی کریں ۔ اس کے بعد پٹ فیڈر کی تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا اور یہ تقریباً 200میل دور سے دریائے سندھ سے پانی لے کر کچھی کے میدانی علاقوں اور نصیر آباد کے ایک بڑے حصے کو سیراب کرتا رہا ۔ چونکہ ریاست کی دلچسپی ختم ہوئی اور اس کی مکمل منصوبہ بندی پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔ یہ نہر شاہ پور کے ریگستان سے گزر کر نصیر آباد اور کچھی کے میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے ۔ ریگستان سے نہر تیس میل کا فاصلہ طے کرتا ہے یہاں سے با قاعدہ کنکریٹ سے نہر تعمیر نہیں ہوئی ۔ ویسے ہی گڑھے کھود کر پٹ فیڈر کو گزارا گیا جس کی وجہ سے 300کیوسک سے زیادہ پانی زیر زمین چلا گیا ۔ خصوصاً اس تیس میل کے ریگستانی علاقے سے جس کی وجہ سے نصیر آباد میں زیر زمین پانی کی سطح زبردست طریقے سے بلند ہوا اور صحبت پور کا ایک بہت بڑا علاقہ سیم کے پانی میں ڈوب گیا اب تک اندازاً دو لاکھ ایکڑ زرخیز زمین صرف صحبت پور کے قرب وجوار میں تباہ ہوگئی ۔ لاکھوں افراد نان شبینہ سے محروم ہوگئے ۔ بڑے بڑے زمینداروں کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ کھیتوں میں مزدوری کررہے تھے۔ وجہ صرف سیم اور تھور ہے اور حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ اخبارات اور اسمبلی کے اجلاس میں بہت زیادہ شور ہوا تو سیم نالہ تعمیر کی گئی ۔ اس نالہ کو سالوں بلکہ دہائیوں تک سندھ کی طرف نہیں لے جایا گیا بلکہ سیم کا آلودہ اور زہریلا پانی کھیر تر نہر میں ڈال دیاگیا جب وہ سیم کا زہر یلا پانی صاف نہر میں شامل کیا جارہا تھا تو اس وقت پمپ تین سو کیوسک پانی ملاوٹ کررہے تھے اور پوری کی پوری آبادی میں بیماریاں پھیلا رہے تھے ۔ بہت احتجاج کے بعد یہ بند کردیا گیا اور Right Back outfall Drainیعنی اہم نالہ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تاکہ سیم کے پانی کو سمندر تک پہنچایا جائے، آج اس منصوبہ کو چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے ۔ سیم نالہ تعمیر ہو کر نہیں رہا ۔حالیہ دنوں میں صرف اوستہ محمد تحصیل اور اسکے قرب وجوار میں سیم کا پانی پچاس ہزار ایکڑ زمین پر کھڑا ہے ۔ سندھ کی حکومت نے زبردستی اور عوام دشمنی میں سیم نالہ بند کردیا جس سے نصیر آباد کے لوگوں کو زیادہ تکالیف کا سامنا ہے ۔ مقامی طورپر کوشش کے بعد یہ اطلاع آئی ہے کہ حکومت سندھ سیم نالے سے گندا اور زہریلا پانی گزارنے کی اجازت دے دی ہے جس سے مقامی آبادی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہم صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سیم نالہ کو جلد سے جلدمکمل کیا جائے تاکہ بلوچستان اور ضلع جیکب آباد سے سیم کا پانی سمندر میں جا گرے اور محکمہ ایریگیشن یا واپڈا شاہ پور کے ریگستانی علاقے میں پکا نہر تعمیر کرے تاکہ پانی ضائع نہ ہو اور صحبت پور کی دو لاکھ ایکر زر خیز زمین کو دوبارہ آباد کیاجائے تاکہ بلوچستان غذائی اعتبار سے ایک خود کفیل صوبہ بنے ۔