|

وقتِ اشاعت :   June 5 – 2016

سلالہ چیک پوسٹ پر ہوائی حملے کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدگی کی جانب بڑھتے جارہے ہیں حالیہ ہفتوں میں یہ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے غالباً اسی وجہ سے وزیراعظم نے امریکا میں جوہری سیکورٹی کانفرنس میں خودشرکت نہیں کی اور کم تر درجے کے حکومتی افراد کو بھیج کر اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی تھی اس کانفرس میں امریکی صدر نے یہ الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیار فرنٹ پوزیشن پر نصب کیے ہوئے ہیں ۔ کچھ دنوں بعد پاکستانی دفاعی افسران نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر اخبار کو بتایا تھا کہ ملک کے دفاع کا یہ یقینی اور قابل بھروسہ طریقہ ہے کہ دشمن کی جانب سے پاکستان پر حملہ کو روکا جائے ۔ یہ سرد مہری اچانک کشیدگی میں بدل گئی جب امریکی ڈرون نے طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو احمد وال نوشکی کے قریب ایک قصبہ میں میزائل حملے کا نشانہ بنایا جس میں وہ ہلا ک ہوگئے ۔ ان کے ساتھ ٹیکسی کا ڈرائیور اعظم محمد حسنی بھی ہلاک ہوا ۔ گمان ہے کہ امریکی ملا منصور کا تفتان سے پیچھا کررہے تھے جب وہ احمد وال کے قریب پہنچے ، یعنی 600کلو میٹر کا طویل سفر طے کرنے کے بعد ان پر ڈرون حملہ کیا گیا غالباً یہ ڈرون افغانستان سے اُڑا تھا اور اس نے گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ احمد وال کے قریب پہنچا ۔ امریکی یا افغان سیکورٹی اہلکاروں یا ایجنٹوں نے معلوم ہوتا ہے کہ تفتان کی سرحد عبور کرنے کے ساتھ ہی ملا منصور اختر کو شناخت کر لیا تھا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ملا منصور کا پیچھا ایران سے کیا جارہا تھا بہر حال ملا منصور کو پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کا نشانہ بنانا یہ حکومت پاکستان کے لئے ممکنہ پیغام ہے کہ امریکی اس قسم کی کارروائیاں پاکستان کے اندر کرتے رہیں گے خصوصاً اس وقت جب طالبان موسم بہار کے حملوں میں مصروف ہیں اور بعض علاقوں میں کامیابیاں بھی حاصل کررہے ہیں جس سے افغان حکومت اور امریکی یا ناٹو افواج کو پریشانی ہے ۔ اگر حالات حکومت کابل کے ہاتھ سے نکلنے لگے تو امریکا افغانستان کا دفاع زیادہ شدت اور قوت سے کر سکتا ہے ۔ بہر حال بلوچستان اس خطے کا سب سے زیادہ حساس ترین علاقہ ہے پاکستان اور دوسرے ملکوں کی دلچسپی اس میں ہے کہ یہاں پائیدار امن رہے اور افغان طالبان بلوچستان کو افغان افواج پر حملوں کے لئے استعمال نہ کریں تو بہتر ہے ۔ ورنہ خطرہ یہ ہے کہ افغان طالبان کے خلاف امریکا براہ راست کارروائی کرسکتا ہے ۔ آج ہی امریکی ترجمان کا یہ بیان ہے کہ پاکستان دہشت گردتنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کررہا ہے ۔ ایک طرح سے امریکی ترجمان نے اس پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ایران پر یہ سنگین الزام بھی براہ راست لگایا کہ وہ پورے خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ یہ پہلی بار ہے کہ امریکی ترجمان نے براہ راست یہ الزامات حکومت ایران پر لگائے ۔ادھر افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی یہ اشارہ دیا ہے کہ آئندہ امریکیوں نے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی اور ڈرون حملے کیے تو ڈرون مار گرائے جائیں گے۔ ان تمام معاملات سے حالات کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے کہ امریکا کے تعلقات بیک وقت ایران اور پاکستان سے یکساں طورپر خراب ہیں ۔ اسی خطرے کے پیش نظر امریکا نے اپنا بہت بڑا بحری بیڑہ جو اندزاً 60جنگی جہازوں پر مشتمل ہے گلف اور بحر بلوچ میں موجود رکھاہے اور گزشتہ کئی سالوں سے وہاں ہے ۔