|

وقتِ اشاعت :   June 5 – 2016

ڈاکٹروں کی ہڑتال طول پکڑتی جارہی ہے اور نوجوان ڈاکٹروں کا رویہ زیادہ سخت ہوتا جارہا ہے ۔ خصوصاً مایوسی کے عالم میں حکومت ان کے ہڑتال اور احتجاج پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے اس لئے وہ زیادہ سخت ترین اقدامات اٹھانے کو تیار نظر آتے ہیں بہر حال انکے مطالبات سے ہم سب کو ہمدردی ہے اورمیڈیا میں لوگ ان کے مطالبات سے ہمدردی رکھتے ہیں مگر ان کو ہڑتال نہیں کرنی چائیے کیونکہ اس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ وہ مریضوں کو سزا دے رہے ہیں یعنی دکھی انسانیت کی پریشانیوں میں جان بوجھ کر اضافہ کررہے ہیں پورے صوبے میں لاکھوں افراد علاج ومعالجے کی سہولیات سے صرف اس لئے محروم ہیں کہ نوجوان ڈاکٹروں کے مطالبات تسلیم کرنے میں حکومت یا نوکر شاہی ٹال مٹول کررہی ہے جبکہ سخت ترین سزا مریضوں کو دی جارہی ہے جو انصاف نہیں ہے ۔ہمار امشورہ یہ ہے کہ حکومت پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کی خاطر اپنا دیرینہ ہڑتال ختم کردیں اور اپنا احتجاج پر امن طریقے سے جاری رکھیں تاکہ بلوچستان کے ایک کروڑ عوام کی ہمدردیاں احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کے ساتھ ہوں نہ کہ نوکر شاہی کے ساتھ ۔ احتجاج کرنے کاسب سے اچھا اور شائستہ طریقہ یہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات بازو پر کالی پٹیاں باندھیں یا اسپتال کے اندر ایک مختصر مدت کے لیے خاموش مظاہرہ کریں ایسے مظاہرے سے عوام الناس کی ہمدردیاں احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کے ساتھ ہوں گی نہ کہ ہٹ دھرم نوکر شاہی ، دوسری صورت میں احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کی عزت اور احترام میں زبردست فرق پڑے گا اگر انہوں نے اپنے احتجاج کو زیادہ وسعت دی اور مریضوں کا علاج کرنے سے بدستور انکار کیا ایسی صورت حال میں حکومت مجبور ہوگی کہ وہ احتجاجی ڈاکٹروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرے جس میں ملازمت سے بر طرفی ، گرفتاری اور جیل کی سزائیں بھی ہوسکتی ہیں ۔ اس سے پہلے کہ معاملات میں بد مزگی پیدا ہو اور حکومت سخت فیصلے کرے اور ڈاکٹر حضرات کے عزت اور احترام میں کمی آئے جو اچھی مثال نہیں ہوگی ۔دوسری جانب مریضوں اور ان کے لواحقین کا احتجاج ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور بعض مریض اس حد تک مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر ہڑتال کے دوران کسی مریض کی موت واقع ہوگئی تو ان کے خلاف خصوصاً ہڑتالی ڈاکٹروں کے رہنماؤں کے خلاف قتل کے مقدمات درج کیے جائیں کیونکہ یہ قتل عمد کے زمرے میں آتا ہے ۔ ایسی صورت حال انتہائی افسوسناک ہوگی کہ انسانیت کے مسیحا کے خلاف مردم کشی اور انسان کشی کا مقدمہ درج ہو ۔ ڈاکٹر حضرات نے صرف اپنی خدمات کی وجہ سے جو عزت کمائی ہے اس کو چند سکھوں کے عوض فروخت نہیں کرنا چائیے ۔ ویسے ہی بلوچستان میں صحت عامہ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ڈاکٹر وں کااپنی ڈیوٹی پر حاضر نہ ہونا، پورے بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے اسپتالوں یا بی ایچ یو زمیں صرف ماہ میں ایک بار تنخواہ لینے آتے ہیں سارے اسپتال کمپوڈر کے حوالے ہیں ۔ پیرا میڈیکل اسٹاف ان اسپتالوں میں مریضوں کا علاج کررہے ہیں ۔بلوچستان میں بھوت ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہے اس لئے ڈاکٹروں کے احتجاج اور ہڑتال کو متوقع عوامی حمایت حاصل نہیں ہے جو ایک افسوسناک بات ہے اس لئے ڈاکٹروں کو اپنی طویل ہڑتال ختم کرنا چائیے اور اخلاقی اقدار کو استعمال کرنا چائیے تاکہ حکومت ان کے جائز مطالبات تسلیم کرے ۔